دوستو،کراچی میں چرس سو روپے کی باآسانی دستیاب ہے جب کہ پیٹرول ایک لیٹر دوسوچونتیس کا مل رہا ہے، باباجی کو جب یہ پتہ چلا تو برجستہ بولے۔۔ گھومنے سے بہتر ہے بندہ جھوم لے۔۔ گزشتہ دنوں ایک جرمن ادارے کی ریسرچ نے پاکستانی قوم کو چونکا کررکھ دیا۔۔لیکن ہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ چرس استعمال کرنے والے شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں امریکہ کا شہر نیو یارک پہلے نمبر پر رہا۔جرمن کمپنی اے بی سی ڈی کی تحقیق کے مطابق نیو یارک میں سالانہ 77 ٹن سے زائد چرس استعمال کی جاتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر کراچی آتا ہے جہاں 42 ٹن چرس پھونکی جاتی ہے۔اے بی سی ڈی، دنیا میں چرس کو قانونی حیثیت دلانے کے حوالے سے جاری ایک مہم کا حصہ ہے۔ کینابس درحقیقت پودوں کی ایک قسم ہے جسے دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے پتوں کو جلا کر پھونکا جاتا ہے جبکہ برِصغیر میں اس کے پتوں سے چرس بنا کر استعمال کی جاتی ہے۔۔
یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ہمیں وہ لطیفہ شدت سے یادآیا جس میں ایک چرسی پٹھان تبلیغی جماعت کے ہتھے چڑھ گیا، تبلیغی جماعت والوں نے پٹھان کی چرس چھڑا کر اس کو ’’نیک‘‘ بنا ڈالا، اب جس جگہ بھی تبلیغی جماعت والے جاتے، اس پٹھان کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے، اور بتاتے کہ کس طرح یہ پٹھان پہلے چرسی ، نشئی تھا اور اب اللہ کے فضل سے تبلیغی جماعت کے سنگم میں ہدایت یافتہ ہوگیا۔۔ کچھ دن تو پٹھان بے چارا برداشت کرتا رہا، پھر آخر ایک دن اس کی برداشت جواب دے گئی اور وہ پھٹ پڑا کہ اتنا تو ۔۔ام چرس پینے سے بدنام نہیں ہوا جتنا توم لوگوں نے ام کو کردیا۔۔ پٹھان نے بوریا بستر سمیٹا، تبلیغی جماعت پر تین حرف بھیجے اور پرانی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔۔۔اسی طرح ایک چرسی نے کہیں سے سن لیا کہ۔۔انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کرسکتا ہے، اس کی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کے لئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، چرسی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے کام کرتی تھی اور انہیں بتایا کہ وہ مرنے کے بعد اپنی آنکھیں کسی نا بینا کے لئے عطیہ کرنا چاہتاہے ، ضروری ٹیسٹ وغیرہ لئے گئے اور پھر جب کاغذات پر دستخط کا مرحلہ آیا توچرسی سوچ میں پڑ گیا ، این جی او کے حکام نے دریافت کیا تو چرسی فلسفیانہ انداز میں بولا۔۔۔سرجی جسے بھی میری آنکھیں لگانا اسے پہلے سے بتادینا کہ دو کش لگانے کے بعد ہی یہ کھلتی ہیں۔۔شکر ہے چرس کے حوالے سے رپورٹ صرف کراچی کی تھی، اگر پورے ملک کا سروے ہوتا تو شاید ہماری قوم نمبر ون پر ہوتی۔۔استاد نے جب کلاس میں بچوں سے باآواز بلند سوال پوچھا کہ ۔۔سب سے زیادہ نشہ کس چیز میں ہوتا ہے؟۔۔ ہمارے جیسا ایک احمق سٹوڈنٹ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔۔ سر تعلیم میں۔۔ استاد کو بڑی حیرت ہوئی، لیکن اپنے سٹوڈنٹ سے سوال کئے بغیر رہ نہ سکا، پوچھا، وہ کیسے؟؟۔۔شاگرد بولا۔۔ کتابیں کھولتے ہی ہمیں نیند آجاتی ہے۔۔کسی چرسی کا بھائی مرگیا، اب اسے یہ ٹینشن ہوئی کہ بھابھی کو کس ’’سلیقے ‘‘ سے اطلاع دے کہ اسے کم سے کم صدمہ پہنچے،بھابھی سے جاکر بولا۔۔۔بھائی نے سارے پیسے جوئے میں ہاردیئے، وہ بولی، اللہ اس کی زندگی برباد کرے، چرسی کہنے لگا۔۔۔ بھائی نے اپنا گھر بھی بیچ ڈالا۔۔۔وہ بولی ، اللہ اس کی عمر کو روگ لگائے۔۔۔چرسی پھر کہنے لگا، بھائی نے ایک اور شادی کرلی ہے۔۔۔وہ بولی، اللہ کرے مرے ،میں اب اس کا مرا منہ بھی نہیں دیکھوں گی۔۔۔ چرسی نے باہر کے دروازے کی طرف منہ کیا اور زوردار آواز میں بولا۔۔بھائیو،اب میت اندر لے آؤ۔۔
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ناز نخرے جس کے اٹھائے جاتے ہیں اسے’’ ہیروئین‘‘ کہاجاتا ہے، اسی طرح جسے مکمل نظراندازکیاجاتا ہے، کوئی لفٹ نہیں کرائی جاتی، جوبے چارہ فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہا ہوتا ہے، اسے ’’ہیرؤنچی ‘‘ اور پنجاب سائیڈ پر اسے ’’پوڈری‘‘ کہتے ہیں۔۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیرونچی بھی صرف ہیروئین کی خاطر زندگی تباہ کرنے کے درپے رہتا ہے، ہیروئین کے لئے گٹرکے ڈھکن چرانے سے لے کر ہر وہ کام کرنے پر تیارہوجاتا ہے جس کے لئے وہ نارمل زندگی میں کبھی تیار نہ ہوتا۔۔استاد نے جب کلاس میں سوال کیا کہ۔۔ ہیرو بہادر ہوتا ہے اور ہیروئین خوبصورت ،آپ لوگ کیا بنناچاہو گے؟؟۔۔ تو ایک بچے نے برجستہ جواب دیا۔۔دونوں۔استاد کو حیرت ہوئی کہ یہ کیسا جواب تھا، استاد نے تفصیل پوچھی تو بچے نے کہا۔۔یعنی۔۔ ہیرو نچی ۔۔۔ ایک تھانیدار نے اپنے ’’جہاز‘‘ سپاہی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔تم اگر نشہ چھوڑ دو ایک دن میری طرح تھانیدار بن جاؤگے، کیوں کہ تمہارے اندر ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن نشہ تمہیں اندر سے کھارہا ہے۔۔ سپاہی نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا۔۔سرجی جب میں نشے میں ہوتا ہوں تو آئی جی سے بھی بڑا افسر بن جاتا ہوں۔۔
ایک بار کچھ نشئی قبرستان میں بیٹھے دم لگارہے تھے کہ اچانک پولیس نے چھاپہ ماردیا، باقی تو بھاگ گئے لیکن ایک لنگڑا تھا اس لئے اسے معلوم تھا کہ بھاگا تو پکڑے پھر بھی جانا ہے۔۔اس نے جلدی سے جیب سے ٹوپی نکالی اور قریب کی ہی قبر کے پاس بیٹھ کر بڑے مودب انداز میں فاتحہ خوانی کے ہاتھ بلند کردیئے۔۔ پولیس نے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔۔چرسی بولا۔۔ میرے والد صاحب مر گئے ہیں تو دعا کر رہا ہوں۔ پولیس نے کہا یہ تو بچے کی قبر ہے اس پرچرسی نے برجستہ کہا۔۔ جی ہاں ابو بچپن میں ہی مر گئے تھے۔۔کسی جنگل میں ایک چیتا بیٹھ کر چرس کی سگریٹ بنارہا تھا کہ اچانک چوہا آگیا۔۔ اس نے چیتے سے کہا ،بھائی سگریٹ چھوڑ دو آؤ میرے ساتھ دیکھو جنگل کتنا خوبصورت ہے۔ چیتا سگریٹ چھوڑ کر اس کے ساتھ چل دیا۔کچھ دور ہاتھی چرس پی رہا تھا۔ چوہے نے اسے بھی کہا، بھائی نشہ چھوڑ دو آؤ میرے ساتھ دیکھو جنگل کتنا خوبصورت ہے۔ ہاتھی بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔۔تھوڑا آگے ایک شیر وہسکی پی رہا تھا ، چوہے نے اسے بھی نشہ چھوڑنے کا کہا۔ شیر نے اسے دو چار تھپڑ مار دیے چیتے اور ہاتھی نے کہا ،بھائی اس بیچارے کو کیوں مار رہے ہو۔۔۔ شیر بولا یہ کمینہ ہر رات ایسے ہی بھنگ پی کر دوسروں کو ساری رات گھماتا رہتا ہے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔وہ بھی کیادورتھا جب دشمنوں کو چائے پلاکر بھیجتے تھے، اب تو اپنی چائے خطرے میں پڑگئی ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔