ایمسٹرڈم کے معبدیہودمیں ہماری دلچسپی کی چیزوں میں شجرحیات بھی تھا ۔ مختلف اقوام میں شجرحیات کا اپنااپناتصورپایاجاتا ہے۔وہ درخت، آدم کو جس کے نزدیک جانے سے منع کیاگیاتھااور جس کا پھل کھانے پر جناب آدم جنت سے اترکر زمین نشین ہونے پرمجبورہوئے اور شاعر کو مضمون ہاتھ آیا کہ’ جرم آدم نے کیااور نسل آدم کو سزا+کاٹتاہوں فصل وہ میںنے جسے بویانہیں‘…یہاں جو شجرحیات دیکھا وہ شیشے کا بناہواتھاجس کا بالائی حصہ ہشت پہلو تھا اوربیچ میں عبرانی زبان کے کچھ الفاظ لکھے ہوئے تھے ۔شجرحیات اوراس کا پھل کھانے کے حوالے سے بائبل کی کتاب امثال کایہ جملہ نہایت خیال انگیزہے کہ’’ صحت بخش زبان، حیات کا درخت ہے پر اس کی کج گوئی روح کی شکستگی کا باعث ہے‘‘ (امثال ۱۵:۴) یہاں رک کر وہ شعریادکرلیجیے جس میں شاعر نے نرم لفظوں سے بھی چوٹیں لگ جانے کی بات کی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ اب مجھے اس شعرکا دوسرا مصرعہ سنانے کی ہمت نہیں ہوتی البتہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے سے بچانے کے لیے میرانیس کی نصیحت کو آویزئہ گوش بنائے رکھتاہوں ۔سحرالبیان والے میرحسن نے تو کمال ہی کردیاہے ؎
لگایامحبت کا جب یاں شجر
شجرلگ گیا اور ثمر جل گیا
شجر،متحف کے زجاجی حصے میں تھا۔ اسی حصے کے شوکیس میں ایک تصویرسجائی گئی تھی جس کے بچے کھچے گیسوکسی سائنسدان کی طرح پریشان تھے ۔تصویرکے نیچے ایک عبارت درج تھی ۔فاروق خالد صاحب مجھے یہ عبارت پڑھواناچاہتے تھے ۔تصویردیکھ کر تو میں اس پر مختلف شاعروں اور فلسفیوں کا گمان کرتارہا لیکن نیچے کی عبارت پڑھ کر معلوم ہواکہ یہ ولندیزی فلسفی سپنوزا کی تصویرہے ۔فاروق خالدصاحب اس تصویر کی جانب اس لیے خصوصیت سے متوجہ ہوئے کہ اس یہودی الاصل فلسفی نے مذہب سے بغاوت کی تھی لیکن یہودنے اس کے باوصف اس کی تصویریہاں سجارکھی ہے یہی نہیں فاروق صاحب کے مطابق یہود اس کی تصویراپنے کرنسی نوٹوں پر بھی چھاپتے ہیں ۔
میں سپنوزا(۱۶۳۲ء…۱۶۷۷ء)سے واقف تھا۔وحدت الوجوداور سرسیدسے واقفیت رکھنے والوں کے لیے یہ ولندیزی فلسفی اجنبی نہیں ۔وہ ہیگ میں عینکوں کے شیشے پالش
کیاکرتاتھا۔وحدت الوجودیوں کی طرح وہ انسان کو ایک عظیم وحدت کا جزوتصورکرتاہے یہ جزواپنی نہادمیں غیرحقیقی اور فانی ہے ۔وہ نیچرکا اس حد تک قائل ہے کہ اسے خدابھی نیچر ہی میں پوشیدہ دکھائی دیتاہے۔انسانی عقل اور ارادہ اس کے نزدیک ایک ہی شے ہے اور اس پر نیچرکے اصول غالب ہیں۔ میںنے فاروق صاحب کو بتایاکہ اقبال نے اپنی ایک نظم میں اس کے فلسفہء حیات پرتبصرہ کیاہے ۔فاروق صاحب، یہ جان کر حیران ہوئے کہ اقبال نے سپنوزاکے بارے میں بھی کوئی شعرکہاہے وہ فوراًگویاہوئے میں وہ نظم سنناچاہوں گا۔میں نے عرض کیاکہ اقبال کی بعض نظمیں اختصار کے معجزوںکا درجہ رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر نظم’’ حکما ‘‘اور نظم ’’شعرا‘‘ جن میں دنیاکے بڑے بڑے فلسفیوں اور شاعروں کے تصور حیات کو ایک ایک شعرمیں بیان کردیاگیاہے ۔ضرب کلیم کی ایک نظم ’’مقصود‘‘فقط تین شعروں پر مشتمل ہے ۔پہلے شعرمیں سپنوزا، دوسرے شعرمیں افلاطون اور تیسرے شعرمیں اپنا تصور حیات بیان کیاہے ۔ہرشعر پوری کتاب کا مضمون اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔ سپنوزاکے فلسفے کو یوں بیان کیاہے ؎
نظر حیات پہ رکھتاہے مرددانشمند
حیات کیاہے؟ حضوروسرورونوروجود
اس کے مقابلے میں افلاطون کی نظر موت پررہتی ہے اور اقبال کی نگاہ میں حیات و موت دونوہی التفات کے لائق نہیں ہیں بلکہ’’ فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود‘‘ …کیوں نہ ہوجب کہ اقبال کے نزدیک ’’ہواگر خود نگرو خود گرو خود گیرخودی ‘‘ توپھر’’یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مرنہ سکے‘‘… بعض لوگوں کے نزدیک یہ نری شاعری ہے، ایسانہیں ہے ۔قرآن کھول کردیکھیں تویہ الہامی کتاب اپنی خودی کو مضبوط کرلینے والوں کوقیامت کی ہولناکیوں میں بھی موت سے آزادی کاپروانہ دیتی دکھائی دیتی ہے :وَیَوْمَ یُنفَخُ فِیْ الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاء اللَّہُ وَکُلٌّ أَتَوْہُ دَاخِرِیْنَ (۲۷:۸۷)اورکیاگزرے گی اس روز جب کہ صورپھونکاجائے گا اورہول کھاجائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ اس ہول سے بچاناچاہے گا اورسب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہوجائیں گے ۔سورئہ زمرمیں ارشاد ہوتاہے : وَنُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاء اللَّہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُم قِیَامٌ یَنظُرُونَ (۳۹:۶۸)اوراس روز صور پھونکاجائے گا اورسب مرکرگرجائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے ان کے جنھیں اللہ زندہ رکھناچاہے پھرایک دوسرا صورپھونکاجائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔
متحف یہودسے نکلے تو ہم کہنہ فروشی کے ایک بازارمیں جانکلے ۔گوبازارکہنہ فروشی کاتھالیکن مال کی پیش کش اتنی معیاری تھی کہ کسی شے سے کہنگی آشکارانہ تھی۔ مصر میں جگہ جگہ’’ نشتری کل حاجہ قدیمہ‘‘ کے بورڈ دیکھاکرتے تھے اور قدیم چیزوں کے بازار بھی دیکھے تھے۔ لاہور میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں لیکن یہ بازار مختلف تھا،سلیقے اور شائستگی نے قدامت اور کہنگی کو بھی جدت کا رنگ عطاکررکھاتھا۔’’ بازارسے گزراہوں خریدارنہیں ہوں‘‘ کے طریقے سے ہم نے اس بازار کو دیکھا۔ یہاں سے آگے بڑھے تو حضرت موسیٰؑ سے منسوب عبادت گاہ پر پہنچ گئے۔ صدر دروازے پر حضرت موسیٰؑ کا بڑا سا مجسمہ تھا۔ جس نے مائیکل اینجلو کا بنایاہوا مجسمہ دیکھ رکھاہو اسے یہ مجسمہ کیا بھائے گا۔پیغمبروں جیسی جلیل القدر ہستیوں کو تصویروں اور مجسموں میں پیش کرنے کی مساعی کی ناکامی اور ناتمامی دیکھ کراس حوالے سے اسلام کے موقف کی حکمت ومصلحت واضح ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے ایک سنیما تھاپھر ایمسٹرڈم کی سیکڑوں نہروں میں سے ایک نہر تھی،جس کے پُل پر حسن، آرائش اور جمال کے جلوے تھے ۔ ایمسٹرڈم کاآرٹسٹ سکوائر ان جلووں سے بھراپڑاہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ ان جلوہ آرائیوں کو دیکھتے دیکھتے ہمارے قدم غیرمحسوس طورپر اس پل کے قریب جاپہنچے جس کے نزدیک ایک نیم بیضوی تختے پر ایک بڑا ساکوٹ کھڑاتھا۔اوپرکی جانب دیکھاتواس کوٹ کے اندر ایک سر بھی نظرآرہاتھا۔یہ سر سپنوزاکاتھا جو ایمسٹرڈم کی بلندوبالاعمارتوں کوعقب میں لیے اس پل پرکھڑاجانے مستقبل میں کیادیکھ رہاہے ۔نیم بیضوی تختے کی اونچائی کو سپنوزاکے قول سے مزین کیاگیاہے ۔مجسمے کے ساتھ پل اور پل کے ساتھ ایمسٹرڈم کے خوش خراموں کی سائیکلوں کا اسٹینڈ ہے ۔ہم نے یہاں بیٹھ کر تصویرکشی کی اور سپنوزاسے رخصت ہوکراپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔