تحریک انصاف کے دوستوں کومجھ سے شکایت ہے کہ میں نے تحریک انصاف میں رہتے ہوئے عبد العلیم خان گروپ سے تعلق رکھا ۔کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ میرا تعلق عبد العلیم خان سے ذاتی ہے ۔ میں نے کبھی اُن کی باتوں کو اہمیت نہیں دی سو اِن کی تردید یا تصدیق کرنا بھی میں اہم سمجھتا ہی نہیں کیونکہ اگرپاگل کتامجھے کاٹ لے تومیں کتے کوکاٹنے کی غلطی کبھی نہیں کرسکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف میں موجود ہر کرپٹ کی جان مجھے دیکھ کر نکلتی ہے ۔میںسمجھتا ہوں کہ ایسی باتیں کرنے والے ہمیشہ مجھ سے خوفزدہ رہے ہیںاور یہ خوف میں نے دوران ِ میٹنگز لاتعداد بار اُن کے چہروں اورآنکھوں میں دیکھاہے ۔ لیکن عبد العلیم خان سے اپنے سیاسی اورذاتی تعلق کے حوالے سے کچھ باتوں کا جواب دینا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ایسے لوگ اپنی اوقات میں بھی آجائیں جو حقائق جانے بغیر تبصرہ کرتے ہوئے کوئی غیرت یا شرم محسوس نہیں کرتے۔ میں انٹر پارٹی الیکشن سے پہلے کبھی عبد العلیم خا ن سے نہیں ملاتھا ۔ میری اُن سے کوئی شناسائی بھی نہیں تھی ۔ہم کبھی کسی پروگرام میں اکھٹے بھی نہیں ہوئے تھے ۔میں انتہائی دیانتداری سے لکھ رہا ہوں کہ عبد العلیم خان بارے میری رائے ہرگز بہتر نہ تھی اورمیں نے بہت سے کالموں میں عبد العلیم خان کو تحریک انصاف میں نہ لینے کا عندیہ بھی دیا ۔مجھے آج بھی اِس کا افسوس ہے کہ میں نے ایک شخص سے ملے بغیر اُس کے بارے میں رائے کیسے قائم کرلی ؟یہ بالکل اسی طر ح تھا جیسے کسی کتاب کو پڑھے بغیر اُس پر تبصرہ کردیا جائے ۔انٹر پارٹی الیکشن میں عبد العلیم خان لاہورکے صدر منتخب ہوئے اورمیں میاں محمود الرشید اور عبد العلیم خان کے امیدواروں کو ہرا کر لاہور کا سب سے بڑا ٹائون داتا گنج بخش جیت گیا جو میاں محمد نواز شریف کا انتخابی حلقہ ہے ۔
عبد العلیم خان سے میری پہلی ملاقات چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہوئی ۔یہ انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد عبد العلیم خان کے صدر پاکستان تحریک انصاف لاہوربننے کے بعد کی بات ہے کیونکہ اُس سے پہلے تو میاں محمود الرشید ہی اُن کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے جنہوں نے تحریک انصاف کیلئے اُن سے لاکھوں روپے فنڈ لینا ہوتا تھا ۔ عبد العلیم خان ملاقات ہوئی تو یہ تعلق بڑھتا چلا گیا جس کی وجہ سیاست سے زیادہ اُن کی وہ
سماجی خدمات ہیں ۔وہ ہرگز ایسے نہیں تھے جیسا تحریک انصاف میں اُن کے آنے سے پہلے پی ٹی آئی میں جماعت اسلامی سے آئے ہوئے ورکروں نے اُن کے بارے میں پروپیگنڈہ کر رکھا تھا ۔ وہ انتہائی ملنسار اورمسکراتے ہوئے چہرے سے ملنے والا شخص ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی انسان دوستی اور کچھ کرگزرنے کے جذبے نے مجھے واقعی متاثرکیا ۔ سیاست میں ہمارے ہاں سماجی خدمات کے جذبے کا فقدان نہیں قحط ہے لیکن عبد العلیم خان اللہ رب العزت کی عجیب مخلوق ہیں جو انسانوں کی خدمت پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور اُسے اپنی سیاست کیلئے استعمال بھی نہیں کرتے ۔
بزدار نے گو کہ ساڑھے تین سال میں سوائے کرپشن کے کوئی کام دیانتداری سے نہیں کیا لیکن اس کے باوجودپنجاب بیوورکریسی نے اُس نالائق وزیر اعلیٰ کے ساتھ مل کر اُتنا کام نہیں کیا جتناعبد العلیم خان فائونڈیشن نے پاکستان بھرکیلئے کیا ہے ۔اُن کے زیر اہتمام چلنے والے یتیم خانے ٗ سکول ٗ خصوصی بچوں کا سکول ٗ لاتعداد فلٹر پلانٹ ٗ اُن کے فلٹرکی تبدیلی ٗ بجلی کے بل ٗ لاہو ر اور پنجاب کے بڑے ہسپتالوں کا سب سے بڑا ڈونر ٗغرباء میں ماہانہ امدادی چیکس کی تقسیم ٗ علاج و معالج کیلئے غربا میں رقم کی تقسیم ٗ بچیوں کی شادی کیلئے امداد ۔حد تویہ ہے کہ 106دن کیلئے چیئرمین تحریک انصاف کی ’’خواہش‘‘ پر نیب کے زیر عتاب رہنے والے عبدالعلیم خان نے اس جیل میں آنے والوں کیلئے وہ سب کچھ سوچا جس کی توفیق گزشتہ 75 سال میں کسی حکومت کو نہیں ہوئی تھی۔ اس جیل نے بھی اپنی تاریخ میں ایسا حوالاتی نہیں دیکھا ہو گا جس نے ہر دن جیل کے مسائل کودیکھا ٗ سمجھا اورپھر کوٹ لکھپت جیل کو ماڈل جیل بنا دیا۔پرانی مساجدشہید کرا کر بنوا دیں ٗ ہسپتال کا نقشہ بدل دیا اور دانت کے امراض کے حوالے سے الگ سے بندوبست کردیا ٗ جیل میں کھانے کی ترسیل کے حوالے سے ذمہ داری عبد العلیم خان نے قبول کی ۔تمام بارکوں میں ائرکولرزکا بندوبست کرا دیا ۔
عمران خان اورعبد العلیم خان میں ایک فرق روز حساب تک رہے گا کہ عبدالعلیم خان بہادروں کی طرح حالات کا مقابلہ کرتا ہے دوست کو عزیز رکھتا ہے اوردشمن کو معافی مانگنے پرمعاف کردیتا ہے لیکن عمران خان کا سارا وجود اللہ نے بغض کی بچ جانے والی مٹی سے بن رکھا ہے ۔ وہ سب سے احتساب مانگتا ہے لیکن اپنی ذات اوراپنے ’’پیاروں‘‘کونہ صرف احتساب سے بالاترسمجھتا ہے بلکہ اُن کی کرپشن بچانے کیلئے ہر حد تک چلا جاتا ہے ۔عبد العلیم خان اعتماد کرنے والا شخص ہے جس طرح اُس نے عمران خان پر اعتماد کیا لیکن عمران خان کونہ اپنی ذات پر اعتماد ہے اور نہ ہی وہ کسی پراعتماد کرنے کیلئے تیار ہے ۔دیانتداری کی ایک تعریف اُس نے خود گھڑ رکھی ہے کہ ’’جسے وہ بددیانت سمجھتا ہے اُسے دنیا کا کوئی شخص دیانتدارنہ سمجھے ۔‘‘یہ کیسی دیانتداری ہے کہ میں اپنے آپ کو دیانتدار مشہور کرا کر پاکستان بھر کے بددیانتو ں کی سرپرستی شروع کردوں ۔عمران خان نے زندگی میں بارہا اپنی تقاریر میں میری تعریف کی لیکن میں نے کبھی اُسے سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ اُن کے والد اکرام اللہ نیازی مرحوم سے پاک ٹی ہاوس میں بہت ملاقاتیں تھیں ۔کبھی کبھی وہ گھر بھی بلا لیا کرتے تھے جب تحریک انصاف بنی اورہم اِس کے ہراول دستے میں شامل ہوئے تواکرام اللہ نیازی مرحوم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میں نے اُسے پیدا کیا ہے تم لوگ اُسے مجھ سے زیادہ نہیں جانتے ٗ وہ دنیا میں کسی کے ساتھ نہیں ہے ۔‘‘
عبد العلیم خان جب تحریک انصاف کیلئے دن رات ایک کر رہا تھا عمران خان سول اکیڈمی لاہور میں میاں محمود الرشید کے ساتھ زیر زمین عبد العلیم خان کے علم میں لائے بغیر حکومت چلانے کا فن سیکھ رہے تھے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر بزداروالی بجلی نہ بھی گرتی توبھی میاں محمود الرشیدوزیر اعلیٰ پنجاب ہوتا جو بزدار سے بڑا کرپٹ سمجھا اورلکھا جاتا ہے ۔مجھے عبد العلیم خان پر اُس دن فخر ہوا جب اُس نے عمران خان کے رویے کے خلاف پریس کانفرنس کی تو اُسی دوران شوکت خانم ہسپتال کراچی سے شکریے کا خط موصول ہوا کہ آپ نے دو کروڑ کے جو چارچیک دیئے تھے وہ سب کیش ہو گئے ہیں ۔وہ عبد الستارایدھی کے بعد اب ہمارے پنجاب کا ایدھی ہے جو اپنی کمائی کا بڑا حصہ ضرورت مندوں میں بانٹ دیتا ہے۔ ان کا قد اس ملک کی مروجہ سیاست سے بہت بڑا ہے وہ سیاست نہ بھی کرے تواُس کی زندگی کیلئے ہزاروں ہاتھ دعا کیلئے اٹھتے ہیں ۔تحریک انصاف کے دوستو! کسی غلط فہمی میں نہ رہنا میں آج بھی مزدوری کرکے اپنے بچوں کا رزق کماتا ہوں اور کرائے کے ایک دو کمروں کے فلیٹ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزاررہاہوں ۔ میرا کل اثاثہ میری ماں اوربیوی بچوں کے علاوہ آپ دوستوں کی محبت ہے ۔آپ کو اگرعبد العلیم خان کے تحریک انصاف میں آنے پر اعتراض ہے تو آپ کا پہلا اعتراض عمران خان پر بنتا ہے مجھ پر نہیں۔