اسلام آباد :سپریم کورٹ جے آئی ٹی سے تعاون نہ کرنے پر ادارروں پر برہم ،ایف بی آر،ایف آئی اے اور آئی بی اچھی ایکٹنگ کررہے ہیں ، ٹانگیں کھیچنے سے کچھ نہیں ہو گا ، جو ریکارڈ چاہیے ہمیں فہرست دیں ہم اٹارنی جنرل سے کہیں گے،جے آئی ٹی کو 10 جولائی تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم ،عدالت کا کہنا ہے کہ آئندہ سماعت بنچ کی دستیابی سے مشروط ہو گی ۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی پاناما عملدرآمد بنچ نے سماعت کی۔ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے پاناما تحقیقات کی تیسری رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ رپورٹ کے بند لفافے کو واجد ضیا کی نگرانی میں کھولا گیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایف بی آر نے پاناما کیس کی تحقیقات سے متعلق ریکارڈ نہیں دیا۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس طرح نہیں چلے گا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سربراہ جے آئی ٹی کو جو ریکارڈ چاہیے اس کی فہرست دے دیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ ایس ای سی پی نے بھی مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کا کام ہے کہ جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کریں۔ ادارے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے لیکن ادارے آئین کے تحت تعاون کرنے کے پابند ہیں ۔ واجد ضیا کا کہنا تھا کہ ایف بی آر سے ویلتھ اسٹیٹمنٹ طلب کی تھی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کو جو ریکارڈ چاہیے ہمیں فہرست دیں ہم اٹارنی جنرل سے کہیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا ایس ای سی پی کی ریکارڈ ٹیمپرنگ کی انکوائری شروع ہو چکی ہے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انکوائری شروع ہو چکی ہے ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ انکوائری کتنی دیر میں مکمل ہو گی ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری چند دن میں مکمل ہو جائے گی ۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایف بی آر کا سربراہ کون ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف بی آر کو نوٹس دے کر بلا لیں اور ایف بی آر مخصوص وقت تک ریکارڈ رکھتا ہے ۔ جسٹس اعجاز الا حسن کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے عدالت کو یہ بات نہیں بتائی تھی۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اگر تعاون نہیں کریں گے تو اس کے اچھے اثرات نہیں ہوں گے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضرورت پڑی تو چیئرمین ایف بی آر کو طلب کریں گے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ٹانگیں کھینچنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔ پی ٹی آئی کے وکیل فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ایف بی آر ، ایف آئی اے اور آئی بی کے سربراہان ایکس ٹینشن پر ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تینوں اداروں کے سربراہ اچھی ایکٹنگ کر رہے ہیں۔ واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام نہیں بتایا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم اخبارات نہیں پڑھتے۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون اور آئین کے مطابق اپنا کام کرنا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ ایف بی آر سے درکار ریکارڈ کی فہرست پیش کریں ، اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ جے آئی ٹی کو ایف بی آر سے تمام دستاویزات فراہم کی جائیں گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایف بی آر سے ریکارڈ چوری ہو گیا ہے یا گم ہوا ہے بتایا جائے جن کا ریکارڈ چاہیے انہوں نے گوشوارے جمع نہیں کرائے تو بھی بتایا جائے ۔ جے آئی ٹی کو دس جولائی تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ تصویر لیک پر حسین نواز نے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی جبکہ ویڈیو ریکارڈنگ پر حسین نواز کی استدعا مسترد کر چکے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے تصویر لیک کی رپورٹ پبلک کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کیا تصویر لیک کے ذمہ داران کا نام پبلک کرنے پر حکومت کو کوئی اعتراض ہے۔ اٹارنی جنرل اس حوالے سے ہدایات لے کر بتائیں آئندہ سماعت بنچ کی دستیابی پر ہو گی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں