9 مئی کرنیوالے، سہولتکار ، منصوبہ سازوں کو ڈھیل دیں گے تو ملک میں یہ فسطائیت پھیلے گی: ڈی  جی آئی ایس پی آر

 9 مئی کرنیوالے، سہولتکار ، منصوبہ سازوں کو ڈھیل دیں گے تو ملک میں یہ فسطائیت پھیلے گی: ڈی  جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی :ڈی  جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف  نے کہا ہے کہ اس سال   آپریشن میں 137  افسران اور جوان شہید  ہوئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر  احمد شریف نے کہاکہ جھوٹے پراپیگنڈے کے خلاف  پریس کانفرنس ضروری  ہے۔  انہوں نے کہاکہ اس سال دہشت گردوں کے خلاف بائیس ہزار سے   زائد آپریشن کیے گئے جس میں 398 دہشت گرد ہلاک  جبکہ 137 افسران اور جوان نے جام شہادت نوش کیا۔


ان کا کہنا تھا کہ کاؤنٹر ٹیررارزم کی مد میں اس سال سکیورٹی فورسز نے مجموعی طور پر اب تک 22 ہزار 409 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے، اس دوران 398 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ 112 سے زائد آپریشن افواج پاکستان، پولیس، انٹیلیجنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔  اس کے دوران انتہائی مطلوب 31 دہشتگردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، رواں سال 137 افسر اور جوانوں نے ان آپریشن میں جام شہادت نوش کیا۔

 ا نہوں نے کہاکہ پوری قوم   پاک فوج کے بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔  ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ انتہائی سنجیدہ معاملات کو  سیاست کی بھینٹ چڑھایاجارہا ہے۔ 

ڈی جی آئی ایس پی آر  احمد شریف  کاکہنا تھا کہ  عزم استحکام آپریشن نہیں  دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے۔ 

ایپکس کمیٹی  نے 2021  کے نظر ثانی   شدہ  نیشنل ایکشن  پلان میں پیش رفت کا جائزہ لیا ہے۔  فیصلہ ہوا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف  مہم کو عزم  استحکام کے نام سے منظم کیاجائےگا۔پاکستان میں اس وقت کوئی نوگو ایریا نہیں ہے۔ 

انہوں نے مزید کہاکہ  من گھڑت خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔  ایپکس کمیٹی کا ایک اعلامیہ آج بھی جاری ہوا ہے۔عزم استحکام ایک ہمہ گیر  ، مربوط  ، انسداد  دہشت گردی  مہم  ہے۔ عزم استحکام ایک ملٹری آپریشن نہیں ہے اور ویسا بھی نہیں ہے جیسا اس کو پیش کیاجارہا ہے۔ عزم استحکام کو متنازعہ  کیوں بنایا جارہا ہے ۔ان کاکہنا تھا کہ سیاسی مافیا نے عزم استحکام   کو متنازع  بنایا، ایک سیاسی مافیا کھڑاہوگیا کہ یہ کام  ہونے نہیں دینا۔

پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے آپریشن عزم استحکام سے متعلق پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس پر بہت زیادہ کنفویژن ہے کہ عزم استحکام کیا ہے؟ ہمارا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ مسائل کو بھی ہم سیاست کی نظر کردیتے ہیں، عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے، میں کہوں گا کہ عزم استحکام ایک ہمہ گیر اور مربوط کاؤنٹر ٹیررازم مہم ہے۔ 

ان کاکہنا تھا کہ چار سے پانچ آپریشن ہم  ہر گھنٹے میں کررہے ہیں۔ ان کاکہنا تھاکہ نیکٹا کےمطابق کے پی  میں اے ٹی سی  کورٹس 13 ، بلوچستان میں 9 ہیں ۔16 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، ان کے علاوہ دیگر مدارس کہاں ہیں، کون ان کو چلا رہا ہے۔ 

ان کاکہنا تھاکہ تقریبا 32  ہزار سے زائد  مدارس   پاکستان میں ہیں۔تقریبا 50 فیصد مدارس کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں  کون چلارہا ہے۔انسداد دہشت گردی عدالتوں  سے  ایک سال میں بلوچستان  میں 10 اور خیبر پختونخوا میں 13 سزائیں ہوئیں۔ ان کاکہنا تھا کہ لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں  موجود ہیں ، دہشت گرد  بھی وہی  استعمال کرتے ہیں۔  بے نامی جائیدادیں اور بے نامی اکائونٹس  کو برداشت کیا تو   دہشت گرد بھی استعمال کریں گے۔ 

ان کاکہنا تھا کہ  افغانستان  کی سرحد 6  ملکو ں سے ملتی ہے ، باقی 5  ملکو ں میں پاسپورٹ ویزے سے آمدو رفت  ہے۔ پاکستان سرحد کو شناختی  کارڈ اور تذکیرہ کی بنیاد پر سوفٹ بارڈر  کیوں رکھا جارہا ہے۔  ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عزم استحکام ملتی ڈومین، ملٹی ایجنسی، ہول آف دی سسٹم، نیشنل وژن ہے پاکستان میں استحکام قائم کرنے کے لیے، یہ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں، اور اس کا مقصد دہشتگردوں اور کریمنل کے نیکسس کو توڑنا ہے، یہ دو دستاویزات ہیں تحریری لیکن پھر بھی عزم استحکام کو متنازع بنایا جارہا ہے، ایک بہت مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ یہ جو مقاصد ہیں وہ پورے نا ہوں، اب وہ یہ کیوں چاہتے ہیں تو اس کے لیے ریوائزڈ ایکشن پلان دیکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھے اور نیشنل ایکشن پلان بنایا 21 نکات کا، اس کے اثرات بھی سب نے دیکھے، آخری حکومت میں وزیر اعظم نے ایپکس کمیٹی میں ریوائزڈ نیشل ایکشن پلان 14 نکات والا منظور کیا، اس میں بھی سیاسی اتفاق رائے تھا۔ 9 مئی کرنیوالے، سہولتکار ، منصوبہ سازوں کو ڈھیل دیں گے تو ملک میں یہ فسطائیت پھیلے گی۔

ان کاکہنا تھاکہ  ڈیجیٹل دہشت گرد  سوشل میڈیا پوسٹس   اور  فیک نیوز کے ذریعے مذموم عزائم  تھوپتا ہے۔ ڈیجیٹل دہشت گرد کو قانون نے روکنا ہے۔ حقیقی دہشت گرد اور ڈیجیٹل دہشت گرد  حقیقت میں ایک ہی کام کررہے ہیں۔  سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت  کے خلاف مہم ڈیجیٹل دہشت گردی ہے۔

ڈیجیٹل دہشت گرد کو قانون کے مطابق  سزا دے کر روکنا ہے۔  ڈیجیٹل دہشت گرد کو   کس طرح ڈیل کرنا ہے اس کو قانون نےروکنا ہے ۔ڈیجیٹل دہشت گرد کہاں بیٹھا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔
 ایک خارجی ٹولا افغانستان میں بیٹھا ہے۔ بھارت موقع  کی تاک میں ہے کہ کب پاکستان  کی فوج اور ادارے  کمزور ہوں او ر وہ  واردات کرے۔فوج  دہشت گردوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں  کے سامنے کھڑی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اپنا کام نہ کرنے  کے لیے سیاسی بیانیہ بنایاتا ہے۔کچھ علاقوں کو کئی بات کلیئر کر چجے مگر اس کے بعد حکومتیں اپنا کام نہیں کرتیں۔