اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جنسی و فحش ویڈیوز سکینڈل ، والدین نے طالبات کو یونیورسٹی جانے سے روک دیا، ہر طرف خوف وہراس 

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جنسی و فحش ویڈیوز سکینڈل ، والدین نے طالبات کو یونیورسٹی جانے سے روک دیا، ہر طرف خوف وہراس 

بہاولپور: اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مبینہ جنسی و فحش ویڈیوز سکینڈل نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔ سیکورٹی افسر اعجاز شاہ کے موبائل سے مبینہ طور پر طالبات اور یونیورسٹی سٹاف کی  400 سے زائد غیراخلاقی ویڈیوز ، آئس اور جنسی گولیاں برآمد ہونے کے بعد والدین نے طالبات کو یونیورسٹی بھیجنا چھوڑ دیا۔ 

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق  جامعہ کی چند طالبات سے رابطہ کیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ کہ واقعہ کے بعد مجھے میرے والدین نے کہا کہ یونیورسٹی مت جاؤ۔ یونیورسٹی کا ماحول اچھا نہیں ہے مگر میں انتہائی منت سماجت کے بعد یونیورسٹی پہنچی ہوں۔میری کئی دوستوں کو ان کے والدین نے یونیورسٹی نہیں آنے دیا۔

ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں سارا دن خوف اور چہ مگوئیوں میں گزرا۔ مختلف طالب علم اور سٹاف مختلف باتیں کر رہے ہیں۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے تو کوئی کچھ۔ ہر کوئی سوال پوچھ رہا ہے کہ موبائل میں کون سی ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں اور ان کو موبائل میں کیوں رکھا گیا تھا۔

 طالبہ کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہا جائے اور کیا کیا جائے۔ مگر میں کہتی ہوں کہ اگر ایسا ہے بھی تو یہ ویڈیوز لیک نہیں ہونی چاہیں اور ملزمان کو ہر صورت سزا ملنی چاہیے۔

بہاولپور پولیس کے ترجمان عمر سلیم نے بتایا کہ پولیس کو یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ اہلکار (سکیورٹی آفیسر اعجاز شاہ) کے موبائل فون سے کم از کم چار سومبینہ فحش ویڈیوز اور تصاویر بر آمد ہوئی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ یونیورسٹی کے مختلف حکام اور طالبات کی ہیں۔

پولیس نے اسی یونیورسٹی اہلکار سے منشیات اور جنسی ادویات برآمد ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس اہلکار کو حراست میں لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور مذید تفتیش جاری ہے۔ عمر سلیم کے مطابق یونیورسٹی عہدیدار کے فون سے حاصل ہونے والی تمام ویڈیوز کو فارانزک رپورٹ کے لیے بھجوا دیا گیا ہے اور یہ رپورٹ موصول ہونے کے بعد پہلے سے درج مقدمہ میں مزید دفعات شامل کر دی جائیں گی۔

  

بہاولپور یولیس کی جانب سے پولیس کی ہی مدعیت میں یونیورسٹی کے مذکورہ آفیسرپر نارکوٹیکس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ درج مقدمہ میں مدعی سب انسپکٹر محمد افضل نواز ہیں جن کے مطابق وہ چند پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بہاولپور میں بغداد الجدید موڑ پر فرائض سرانجام دے رہے تھے جب ایک سفید رنگ کی گاڑی کو پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا تو گاڑی والے نے سڑک کی غلط جانب سے تیزی سے واپس مڑنے کی کوشش کی۔

سب انسپکٹر محمد افضل کی مدعیت میں درج مقدمہ میں لکھا گیا ہے کہ پولیس نے اس گاڑی کو روکا تو گاڑی میں ایک ہی شخص موجود تھا جس کی تلاشی کے دوران ایک عدد سیاہ پرس اور سیکس کے لیے استعمال ہونے والی پانچ گولیاں برآمد ہوئیں۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ پرس کی تلاشی کے دوران ٹرانسپیرنٹ مومی کاغذ میں لپٹی ہوئی کرسٹل آئس بر آمد ہوئی جس کا وزن 10 گرام تھا۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گاڑی سے دو عدد موبائل فون بھی برآمد ہوئے جن کا موقع پر جائزہ لیا گیا تو دونوں میں مبینہ طور پر لاتعداد فحش ویڈیوز اور خواتین کی تصاویر موجود تھیں۔

ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے ملزم نے اپنا تعارف اسلامیہ یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی افسر کے طور پر کرواتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس کے فون میں موجود مبینہ ویڈیوز یونیورسٹی کی مختلف طالبات اور حکام کی ہیں۔ملزم نے کرسٹل آئس اور سیکس کی گولیوں کے ذاتی استعمال کے ساتھ ان کی فروخت میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا۔

  

دوسری طرف اسلامیہ یونیورسٹی کے قانونی مشیر فاروق بشیر ایڈووکیٹ نے اس مقدمے کو یونیورسٹی کے خلاف ایک ’منظم سازش‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت یونیورسٹی میں طالب علموں کی تعداد 17 ہزار تک پہنچ چکی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔یونیورسٹی اس وقت منافع میں جا رہی ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ ایک منظم مافیا یہ سازش کر رہا ہے۔

فاروق بشیر نے دعویٰ کیا کہ ’کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو آئس کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اب یہ واقعہ سامنے آیا ہے۔ یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی افسر اور اس کیس کے ملزم کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’وہ سات سال سے یونیورسٹی میں تعینات ہیں اور ان کے خلاف ایک بھی شکایت نہیں ہے۔ پولیس کے پاس بھی ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔

دریں اثنا اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور نے اعلان کیا ہے کہ وہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب سمیت اپنے تمام ملازمین کے ڈرگ ٹیسٹ کرائے گی۔ ہ فیصلہ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر سید اعجاز حسین شاہ کی گرفتاری کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔

پبلک ریلیشن آفیسر کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے دعویٰ کیا کہ یونیورسٹی، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ہدایت اور رہنما خطوط کے تحت، کیمپسز میں منشیات کے حوالے سے عدم برداشت کا رویہ اپنایا ہے۔

چیف سیکیورٹی آفیسر کی گرفتاری کے بعد وائس چانسلر نے منشیات کا کاروبار کرنے والوں کی نشاندہی کے لیے خود سمیت تمام ملازمین کے خون کے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ یونیورسٹی رجسٹرار معروف لیبارٹری سے ہونے والے طبی ٹیسٹوں میں مکمل شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور ان کی گرفتاری کی بے بنیاد خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، مزید کہا کہ کچھ شرپسند ان کے وی سی کی کردار کشی میں ملوث ہیں۔

مصنف کے بارے میں