اقتدار کا پھندا

اقتدار کا پھندا

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج سب نے تسلیم کرلیے ۔اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ضلع اسلام آباد تک محدود ہوجانے والی شہباز شریف حکومت ازخود مستعفی ہو جاتی اور نئے عام انتخابات کا اعلان کردیا جاتا ۔مگر مختلف جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد نے اجلاس منعقد کرکے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی ۔اس اجلاس کے بعد وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے دھواں دھار پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کے  کسی شیطانی قدم کے جواب میں خاموش نہیں رہا جائے گا اور ٹکا کے برابر جواب دیا جائے گا۔خواجہ سعد کی اس دھمکی پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ جب آپ حکومت آئے تو عمران خان ، بشری بی بی ، گوگی ، مانیکا فیملی کے متعلق ہر طرح کی کرپشن کی باتیں کرتے رہے مگر کیس ایک بھی درج نہیں کیا ۔کہا جاتا ہے کہ اس حوالے اسٹیبلشمنٹ سے کلیئرنس نہیں مل رہی تھی ۔ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو مگر قصور وار توآپ کو ہی ٹھہرایا جائے گا ۔جب وفاق اور پنجاب دونوں میں آپکی جماعت کی حکومتیں تھیں آپ اس وقت شہباز گل یا فیاض چوہان تک کا کچھ نہیں کرسکے تو اب بدلتے ہوئے حالات میں کیا کرلیں گے ؟ بہر حال خواجہ سعد نے حکومتی اتحاد کے ایما پر عدلیہ کے متعلق جو باتیں کی ہیں وہ قابل غور ہیں ۔اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کی بات ہوتی ہے تو ہم پارلیمانی نمائندہ قوتیں اور سب جمہوری قوتیں باآواز بلند یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمان کے فیصلوں کا احترام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ’قانون سازی ہمارا اختیار اور حق ہے، اس اختیار اور حق پر بالکل کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور اس پر خاموش بھی نہیں رہا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ’یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے وسیع مفاد کے اندر پارلیمان کوئی کام کرے تو اس کو معطل کردیا جائے، یہ افسوس ناک ہے، اس کی پاکستان کے وفاقی پارلیمانی نظام اور 1973 کے آئین میں گنجائش نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پی ڈی ایم ، پی پی پی ، اے این پی سمیت تمام اتحادی جماعتوں کے 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر اعتراضات ہیں اور سمجھتے ہیں یہ فیصلہ آئین کی روح سے متصادم ہے۔اس حوالے سے سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست کئی دنوں سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے اس کو فل کورٹ سنے اور اس پر جلد از جلد فیصلہ دیا جائے۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد کیا جائے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ ، عدالتوں اور پی ٹی آئی کے ہاتھوں پے درپے جھٹکے لگنے کے باوجود اگر حکومتی اتحاد اسی لب و لہجے اور جرأت سے یہ مطالبات صرف دس روز تک مسلسل 
دھرائے اور ساتھ میدان عمل میں آکر باہمی اور عوامی یکجہتی کا اظہار کیا جائے ( جو ہرگز مشکل نہیں ) تو بازی پلٹ جائے گی مگر ایسا ہوگا نہیں۔ کیونکہ کم ازکم دو بڑی جماعتیں طاقت کے حقیقی مراکز سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتیں ۔حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں خصوصاً جے یو آئی جو اپنی سٹریٹ پاور سے زبرست ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر وہ یقیناً یہی سوچ کر خاموش ہے کہ ہر بار کی طرح وہ استعمال ہوکر اپنا وقت اور توانائیاں کیوں ضائع کرے ۔اب یہ کوئی راز نہیں رہ گیا کہ پی ٹی آئی کو ہٹا کر جو سیٹ اپ بنایا گیا وہ ریاست کی مجبوری تھی۔ آئی ایم ایف بتا چکا کہ فروری 2022 میں معاہدے سے انحراف کے سبب پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں ۔حیرت انگیز امر ہے کہ تجربہ کار سیاسی جماعتوں نے آگے بڑھ کر عمران حکومت کا ملبہ اپنے سر پر اٹھا لیا ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ اس حکومتی اتحاد کے ساتھ ڈبل گیم ہورہی ہے ۔پنجاب حکومت کی بات ہی  کرلی جائے تو پوچھا جانا چاہیے کہ چودھری پرویزالٰہی کہاں کے جاوید ہاشمی ہیں کہ کسی ازخود یا کسی غیر متعلقہ افسر کے فون پر طشتری میں رکھ کر پیش کی جانے والی وزارت اعلیٰ چھوڑ حاضری دینے بنی گالہ پہنچ جائیں ۔یقیناً انہیں بہت اوپر سے کہا گیا تھا کہ آپ نے تا حکم ثانی عمران خان کے ساتھ ہی رہنا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ پرویز الٰہی آگے چل کر پی ٹی آئی کے لیے وہی کردار ادا کریں جو مسلم لیگ جونیجو گروپ کی طرف سے وزیر اعلیٰ منظور وٹو نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا تھا ۔منظور وٹو نے اپنی پارٹی کی درجن سے زائد سیٹوں کے ساتھ صوبائی حکومت کا مکمل کنٹرول سنبھال کر پیپلز پارٹی کو عملًا کارنر کردیا تھا ۔اس وقت وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے بڑی مشکل سے وٹو کو ہٹا کر بے ضرر عارف نکئی کو وزیر اعلیٰ بنوایا تھا ۔یہ وقت ہی بتائے گا کہ پرویز الٰہی پنجاب میں عمران خان کے لیے بزدار بن کر کام کریں گے یا پھر اپنی’’ مہارت ‘‘ دکھا کر خود کو منوائیں ۔ملک میں طویل عرصے سے اس طرح کی سیاست ہوتی آرہی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔مسلم لیگ ن کو دیکھ لیں نہ جانے کس کی گارنٹی پر اقتدار کا پھندا خود اپنے گلے میں ڈال بیٹھی ہے اور اب بھی اسے اتار کر پھینکنے کو تیار نہیں ۔صاف نظر آرہا ہے کہ ابھی معیشت کے حوالے سے مزید سخت فیصلے کرنا ہوں گے ۔ظاہر ہے اس کا بوجھ بھی ن لیگ کو ہی اٹھانا ہوگا ۔ایک بے اختیار وزیر اعظم غیر مقبول بلکہ عوام دشمن فیصلے کرکے آخر کس کی خدمت کررہا ہے ؟ اداروں کی طرح سیاسی جماعتیں بھی ملک کا اثاثہ ہے ۔ن لیگ کا جمہوریت اور کارکردگی کے حوالے سے تھوڑا بہت نہیں بلکہ بھرپور پس منظر ہے ۔قربانیاں دینے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے کی تاریخ بھی موجود ہے اور ستم ظریفی یہ کہ 2014 سے لے کر آج تک دو مرتبہ حکومت میں ہونے کے باوجود ٹھکائی بھی کرا رہی ہے ۔اثاثے ایسے ضائع نہیں ہونے چاہیں ۔سیاست کے انداز بدلے گئے ۔اب وہ وقت ہی نہیں رہا کہ آپ کوئی بھی مورچہ خالی چھوڑیں ۔صاف نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت فیصلوں کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ سیاست میں کنفیوژن بذات خود بہت بڑی مصیبت ہے ۔پارٹی کو نئی لیڈر شپ کی ضرورت ہے ۔جو مکمل اختیارات کے ساتھ دلیرانہ فیصلے اور گلی محلوں میں پارٹی کی تنظیم ساز ی فیصلے کرسکے ۔پارٹی میں ان لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو کسی کے بھی دبائو میں نہ آئیں اور مخالفین کو بھرپور جواب دے سکیں ۔سوشل میڈیا ہو یا دیگر پلیٹ فارمز آگے بڑھ کر کھیلنا آپشن نہیں مجبوری بن چکا ۔اب یہ فیصلہ قیادت کو کرنا ہے کہ مریم نواز کو آگے لانا ہے یا شاہد خاقان عباسی کو۔ مسلم لیگ ن نے فوری طور حکومت نہ چھوڑی تو وہ عمل شروع ہوجائے گا جو اسٹیبلشمنٹ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود 1990 کی دہائی سے لے کر آج تک ممکن نہیں ہوسکا ۔ اب فضائیں بدلنا شروع ہوگئی ہیں ۔اقتدار کا پھندا گلے سے خود اتار کر نہ پھینکا گیا تو انجام واضح ہے ۔

مصنف کے بارے میں