کچھ بھی کہہ لیں آپ چاہے تحریک انصاف کے سخت ترین ناقد ہی کیوں نہ ہوں میڈیا سمیت جہاں آپ کو موقع ملتا ہے آپ برملا تحریک انصاف اور اس قیادت پر کھل کر بے رحم تنقید کرتے ہیں لیکن تنہائی میں آپ اس بات کا اعتراف ضرور کرتے ہوں گے کہ جھوٹ بولنے کا جو فن اس جماعت اور اس کی قیادت کے پاس ہے دور دور تک دوسرا کوئی اس کا ثانی نہیں ہے بلکہ اس فن میں پہلے نمبر پر بھی یہی ہیں دوسرے اور تیسرے نمبر پر یہی ہیں کسی اور کی اگر بات ہو گی تو وہ کہیں ساتویں 8ویں نمبر سے پہلے دکھائی نہیں دے گا یہ ہماری رائے نہیں ہے بلکہ ایک سے زائد بار خود عمران خان جھوٹ کو یو ٹرن کا نام دے کر اس کے فضائل بیان کر چکے ہیں اور ابھی چند دن پہلے بھی انھوں نے اس حوالے سے بیان دیا ہے اور جرنیلوں کو بھی اپنی بات سے مکر جانے کا مشورہ دیا ہے ۔ اب آپ یہی دیکھ لیں 17 جولائی کو کسی نے پی ٹی آئی یا اس کی قیادت پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ ایک عدد آڈیو لیک ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے کہ جس میں فرزند پنڈی شیخ رشید صاحب کسی سے موبائل پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی جلیل شرقپوری کے متعلق پوچھ رہے ہیں کہ انھیں پیسے دے دیے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آڈیو ٹیپ میں گفتگو کرنے والے دونوں صاحبان اس گفتگو کا اعتراف بھی کر لیتے ہیں یقیناً کچھ لوگوں کو اس اعتراف پر حیرت ہوئی ہو گی لیکن ہمیں تو اس بات پر رتی بھر حیرت نہیں ہوئی اس لئے کہ ہمیں اس بات کا بخوبی علم بھی ہے اور عشروں کا تجربہ بھی ہے کہ میرے محترم قائد انقلاب عمران خان کو گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں پارس بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور پارس پتھر کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جو اسے چھو لیتا ہے وہ سونے کا ہو جاتا ہے لہٰذا اس تناظر میں جلیل شرقپوری ہوں یا فیصل نیازی کی لوٹا کریسی نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ جو بھی عمل خان صاحب کی جانب سے وقوع پذیر ہو گا اسے حلال ہونے کا درجہ بھی مل جاتا ہے ۔
فن میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کبھی عمران خان یا تحریک انصاف کے کسی لیڈر کی زبان کو گڈمڈ ہوتے دیکھا یہی وجہ ہے کہ فواد چوہدری نے جب حکومتی اتحاد پر لوٹا کریسی کا الزام لگا کر زرداری صاحب رانا ثنائاللہ اور عطا تارڑ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تو زبان لڑکھڑائی نہ لہجہ گڑبڑ ہوا اور نہ ہی آنکھوں نے زبان کا ساتھ چھوڑا اور بات صرف گرفتاری تک محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے ببانگ دہل سپریم کورٹ سے تحقیقات کا بھی مطالبہ کر دیا مجال ہے کہ انھیں ایک لمحہ کے لئے بھی اس دوران یہ خیال آیا ہو کہ اگر سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی آڈیو کے حوالے سے پوچھ لیا تو کیا جواب دیں گے لیکن بہرحال یہ بات تحریک انصاف کی قیادت کا سپریم کورٹ پر اعتماد کو بھی ظاہر کرتی ہے اور پھر سپریم کورٹ پر اعتماد کی وجوہات بھی تو ہیں اور یہ بات ہر ایک کے مقدر میں ہوتی بھی نہیں ایک ٹاک شو میں جب عظمیٰ بخاری سے پوچھا گیا کہ نواز لیگ آڈیو ٹیپ پر سپریم کورٹ میں کیوں نہیں جا رہی تو انھوں نے حسرت بھرے لہجہ میں کہا کہ ان کی ایسی قسمت کہاں کہ ان کی پٹیشنوں کو بھی انٹر ٹین کیا جائے تو یہ اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں لیکن پھر یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ انسان اپنے نصیب خود بناتا ہے تو ایسے معاملات میں پھر
مجبوری ہے وہ کرنا پڑتا ہے کہ جو اکثر ہم بسوں کے پیچھے لکھا ہوا پڑھتے ہیں کہ پار کر یا پھر برداشت کر تو نواز لیگ اور پی پی پی والے اگر پار کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں یا ان کی یہ صلاحیت کسی نے زبردستی سلب کر لی ہے تو پھر برداشت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اکبر الہ آبادی نے تو پتا نہیں کس وجہ سے کہا تھا کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
لیکن یقین کریں کہ عمران خان کے مخالفین پر یہ شعر ایک دم فٹ بیٹھتا ہے کہاں پی ڈی ایم کی قیادت کہاں سپر پاور امریکن صدر جو بائیڈن اور کہاں کوئی بین الاقوامی سازش لیکن ان بیچاروں نے کچھ کیا بھی نہیں اور خان صاحب نے انھیں غدار بھی بنا دیا کہاں یہ کہ یہودی گھرانے میں کس کے بچے پل رہے ہیں اور کہاں خان صاحب کے تمام مخالف یہودیوں کے ایجنٹ اور خان صاحب ریاست مدینہ کے داعی ایسی ہی کسی صورت حال پر کلیم اعجاز نے کہا ہو گا کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
قارئین اندازہ کرے کہ تین سال آٹھ ماہ کے عرصہ میں مہنگائی بیروزگاری اور قرض لینے کے ریکارڈ توڑ دیے لیکن مجال ہے کہ خان صاحب سے لے کر کارکن تک کسی نے پروں پر پانی پڑنے دیا ہو حتیٰ کہ اسلام آباد میں بارش میں ایک سیکٹر ڈوب گیا لیکن وہاں کلاؤڈ برسٹ کرا دیا گیا لیکن جب محکمہ موسمیات نے اس کی تردید کی تو پھر پرویز مشرف پر ملبہ ڈال دیا گیا ان کا جرم ہے انھوں نے اس کو بنایا کیوں ۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت اور ان کے حمایتیوں کا حال یہ ہے کہ پچاس دن بعد جب پیٹرول کی قیمتیں دوسری بار بڑھائی گئیں تو حکومتی وزیروں مشیروں سمیت میڈیا کے حمایتیوں سے لے کر عام کارکن تک سب کے سانس پھول گئے اور اب حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں سانس بحال ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس لوٹا کریسی کے کوئی ثبوت نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ میڈیا پر ایک بیانیہ بنا کر اسے سپریم کورٹ میں لے کر جا رہے ہیں اور ثبوت کیا ہیں کہ صرف دو ارکان کے بیان حلفی لیکن نواز لیگ کے پاس بھی ایک رکن پنجاب اسمبلی کا بیان حلفی موجود ہے اور آڈیو ٹیپ کے باوجود بھی حکومتی اتحاد اس لوٹا کریسی کے کیس کو لے کر سپریم کورٹ ان سے پہلے کیوں نہیں جا سکی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے یہاں تو ایک عام جھگڑے کی اگر ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو فریق مخالف اس کی کاؤنٹر ایف آئی آر درج کرائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا لیکن تحریک انصاف کے لئے کھلا میدان کیوں چھوڑا جا رہا اور انھیں کھل کر کھیلنے کے وسیع مواقع کس اصول کے تحت دیے جا رہے ہیں یہ گتھی کم از کم ہم سے تو نہیں سلجھ سکی یعنی یہ تو وہی حال ہے کہ
پنج ست مرن گوانڈھناں،
رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں
تے وچ مرزا یار پھرے
(پانچ سات پڑوسنیں مر جائیں اور باقی جو بچیں وہ بیمار ہو جائیں اور گلیاں ویران ہو جائیں تاکہ ان میں مرزا یار چلے پھرے) خان صاحب کا بھی یہی حال ہے کہ انھیں بھی سیاست کی گلیاں ویران چاہیے تاکہ وہ کھل کر کھیل سکیں کیونکہ ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ایک بھی اگر کوئی مخالف ہو تو اس کے سامنے ایمپائر کی مدد کے بغیر ٹھہر سکیں اور ان کی قسمت دیکھیں کہ کرنے والے ان کے لئے ایسا ماحول بنا بھی دیتے ہیں بہرحال سیاست کو اب اس مقام پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں اپنی آنکھ کے شہتیر تو نظر نہیں آتے لیکن دوسرے کی آنکھ کا تنکا ضرور نظر آ جاتا ہے۔