اسلام آباد: سپریم کورٹ میں بنچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی اس معاملے سے ڈر رہا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ دو رکنی بنچ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل تھا، جس نے توہین عدالت کے کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالتی معاونین کی تقرری پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ یہ معاونین درخواست گزاروں کے وکلا ہیں، جس پر عدالت نے مزید دو عدالتی معاونین، خواجہ حارث اور احسن بھون، مقرر کیے۔ سماعت کے دوران، جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے، نہ کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے۔ انہوں نے اس سوال پر بھی بحث کی کہ بنچز کی تشکیل اور کیس کی واپسی کے بارے میں کیا قانونی جواز ہو سکتا ہے۔
وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ بنچز کی تبدیلی ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب کیس بنچ کے سامنے نہ ہو۔ عدالتی معاون منیر اے ملک نے فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی، جسے عدالت نے مسترد نہیں کیا اور کہا کہ توہین عدالت کے کیس میں فل کورٹ کا حکم دیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے بنچز کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت مزید کل تک ملتوی کر دی۔