ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور یہاں کیونکر آن پہنچے؟ نوجوان نسل تو شاید اسے باور نہ کرسکے۔ خصوصاً وہ سب جو نئی صدی میں پیدا ہوئے یا شعور کی آنکھ ہی ان حالات کے جھکڑوں اور آندھیوں میں کھولی۔ یہ سموگ صرف وہ تو نہیں جو سورج کو دھندلائے دے رہی ہے۔ قلب وروح، نگاہ اور بصیرت کو بھی دھواں دھواں کر دینے والے حالات کا سامنا ہے۔ سیاسی قلابازیاں، مفاد پرستی، بدترین مالی اخلاقی بحران، بے حسی، لاقانونیت، اخلاق وکردار کے زوال پر طبیعت میں تکدر بہت بڑھ جاتا ہے۔ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا؟ پھر نبیئ صادقؐ کے فرامین کی حقانیت بہ چشمِ سر نظر آتی ہے کہ ہمیں تو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا، مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت کے مطابق ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں اور (مجھ سے) فرمایا کہ اے عبداللہ بن عمروؓ! اس وقت تمہارا کیا حال اور کیا رویہ ہوگا جب صرف ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے اور ان کے معاہدات اور معاملات میں دغا فریب ہوگا اور ان میں (سخت) اختلاف (اور ٹکراؤ) ہوگا اور وہ باہم اس طرح گتھ جائیں گے (جیسے میرے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے گتھی ہوئی ہیں۔) عبداللہ بن عمروؓ نے عرض کیا کہ پھر مجھے کیسا ہونا چاہیے یا رسولؐ اللہ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس بات اور جس عمل کو تم اچھا اور معروف جانو اس کو اختیار کرو اور جس کو منکر اور برا سمجھو اسے چھوڑ دو اور اپنی پوری توجہ اپنی ذات پر رکھو اور ان ناکارہ وبے صلاحیت اور آپس میں لڑنے بھڑنے والوں سے اور ان کے عوام سے تعرض نہ کرو۔ (بخاری) آپؐ نے ’حثالہ‘ یعنی بھوسی کا لفظ استعمال فرمایا یعنی آدمیت کے جوہر سے بالکل خالی اور بھوسی کی طرح صلاحیت سے عاری بدکردار باہم لڑنے بھڑنے والے لوگ! ایسے میں اپنے آپ کو چہار جانب پھیلے اثرات سے محفوظ رکھنا، اپنی نسلوں کے تحفظ کی فکر اہم ہے۔
کیا یہ ہمارے ماحول کا ایکسرے نہیں ہے؟ آئے دن بدلتی وفاداریاں، سیاست میں اکھاڑپچھاڑ اپنی آخری انتہاؤں پر۔ ایک طوفانِ بلاخیز پورے ماحول پر چھایا ہوا ہے۔ ساری اخلاقیات درجہ بہ درجہ ادھڑتی اکھڑتی چلی گئیں۔ جو باتیں مہذب انسان ذہن میں لانے سے بھی گریزاں ہوتا ہے، وہ سب سرعام اچھالی، لکھی، بولی، شیئر کی گئیں۔ گٹر جیسی گندگی اور تعفن برداشت کرنے کے حوصلے بڑھ گئے۔ یہ کیا راز ہے کہ کرسی سے اتارے جانے کے باوجود، لامنتہا سیاسی، مالیاتی، اخلاقی اسکینڈلز کے باوجود سابق وزیراعظم خان صاحب کو مقتدرینِ اعلیٰ اور عدلیہ کا دستِ شفقت کھلے یا چھپے میسر رہا؟ ناتجربہ کار، نااہل، ہٹ دھرم، ضدم ضدا سرکار ملکی مفادات بالائے طاق رکھ کر گھر پھونک تماشا بنا کھڑا کرنے والے کے…… جتنے بھی عیب تھے وہ ہنر ہو کے رہ گئے؟ ملک مہنگائی کی بدترین راہوں پر دھکیل کر، ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا کر خود بھاگ لیے یا عزت بچا رکھنے کو بھگا دیے گئے؟ اس لیے کہ بدترین حالات میں نئے فلسفوں کا چولا پہناکر پھر نجات دہندہ بنا لائے جائیں؟
یہ طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی، ملکی کلیدی مناصب پر آن کر خود نہیں بیٹھ سکتا۔ پتلی تماشے ہیں۔ ڈوریں باہر سے ہلتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اشرف غنی اورکرزئی برانڈ ہی چلتا ہے۔ اسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا امریکا کی ملی بھگت کہیے۔ مسکین کشکولی معیشت سے قومی آزادی سلب ہو جایا کرتی ہے۔ بقول وزیراعظم کہ ہمارے ایک ہاتھ میں کشکول ہے اور ایک میں ایٹم بم۔ اب ان کی نگاہ ہماری ایٹمی
صلاحیت پر مرکوز ہے۔ سارے میلے ہمارا ایٹمی کمبل چھیننے چرانے کے لیے ہیں جو روزِ اول سے خار بن کر ان کے سینے میں کھٹکتا ہے۔ ملک کو ڈیفالٹ میں دھکیلنا، شرمناک سیاسی تماشے بپا کرنا، غریب کو بھنبھوڑ ڈالنے والے معاشی حالات کے شکنجے میں جکڑکر ملک گیر سطح پر بدامنی، بے چینی، فساد بپا کرنا۔ یہ سب بلاسبب تو نہیں۔ ایک فرد ہمہ نوع سکینڈلز (جن کا انکار بھی ممکن نہ تھا) میں لتھڑ کر پھر پاک صاف بن کر آ بیٹھے؟ مقدس ترین اصطلاحات سے کھلواڑ کے باوجود کسی ماتھے پر بل نہ آئے؟ ملکی دفاع، عدل وانصاف کے ایوانوں کے ذمہ داران بھی کلین چٹ دیتے چلے جائیں؟ ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں! ملک کو ازسرنو انتخابات یعنی مہنگی جمہوریت کے نئے سلسلوں میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتائج بھی ضروری نہیں کہ قابلِ قبول ہوں۔ گویا ملک کو متزلزل کیے چلے جانے کی کمربستگی ہے۔
ادھر پوری دنیا میں واویلا ہے کہ افغان طالبان ’اپنی تشریحات‘ کے مطابق شرعی قوانین لاگو کیے جا رہے ہیں! یہ بھی خوب رہی۔ بیس سال ان تشریحات کی عملی سند، مدرسہئ عالمی جنگ سے فاتحانہ وصول کرکے (جو امریکا نے دوحہ مذاکرات میں اپنے دستخط سے جاری کی!) کیا اب بھی یہ سوال باقی ہے؟ شرعی قوانین کی تشریح کیا بش بائیڈن یا پرویزمشرف عمران خان فرمائیں گے؟ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے! اسلام کے حوالے سے یہ طے شدہ امر ہے کہ سبھی مسلم ممالک میں میڈیا پر ہمہ وقت قابض سیکولر کٹھ پتلی حکمران یا ان کے مدح سراؤں کی ٹولیاں یا ناچتے گاتے بجاتے ہلڑ باز نوجوان ایک حقیر اقلیت ہیں۔ 2 ارب مسلمانوں میں بہرطور اسلام پسند (باعمل ہوں یا کمزور طبیعت) عوام عظیم اکثریت ہیں۔ سو انگریزی اردو پاکستانی لکھاری ہوں یا ٹاک شوز کی رونق جمانے والے، یہ جن ’شرعی تشریحات‘ کے متلاشی متقاضی و متمنی ہیں وہ برسر زمینِ افغانستان تو ممکن نہیں۔
ساری دنیا نے سمجھاکر دیکھ لیا۔ انہیں انسانی حقوق، آزادی کی اقوام متحدائی زبان پڑھانے سکھانے کی کوششیں رائیگاں گئیں۔ وہ یہ چارٹر بہت پہلے نبیئ صادقؐ سے آخری حج کے موقع پر پڑھ چکے۔ رہی آزادی، مٹھی بھر این جی اوز برانڈ کابلی خواتین کی، (جو امریکا C-17 پر بٹھاکر نہ لے گیا، چمکار کر یہیں چھوڑ گیا) تو: یہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری۔ حقیقی آزاد عورت صرف رب تعالیٰ کی غلام ہی ہوسکتی ہے۔ جو مرد کی حرص وہوس کی غلامی (آزادی، مساوات کے جھانسے میں) کسی صورت قبول نہیں کرتی۔ مخلوط طرز معاشرت، تعلیم اور ملازمتوں میں ’ترقی‘ کے بینر تلے شمع محفل اور سستا شکار بننے سے انکاری ہوتی ہے۔ حیا اور محفوظ ماحول میں مقاصد فطرت کی تکمیل میں (علامہ اقبال کی نصیحت پر…… کہ در آغوش شبیرؓے بگیری) دنیا کی متحد باطل قوتوں کو چاروں شانے چت کرنے والے شیر جنم دیتی ہے! وہ ہمارے سیکولر دانشوروں کی شرعی تشریحات پر قانون سازی کریں؟ ہم نے20سال رواداری، برداشت، آزادی، ہارمونی (Harmony، موافقت مطابقت) کے ہارمونیم بجاکر دیکھ لیے آج یہاں صنفی جنسی جرائم کی شرح، اخلاقی بربادی کی انتہا اور ملکی صورت حال ملاحظہ ہو۔ یہ مکھی آنکھوں دیکھے کون نگل سکتا ہے! وہ ’ہیومن رائٹس واچ‘ جس کی نخوت بھری ناک تلے گوانتا نامو، ابوغریب، حقوق انسانی پر سیہ کاریوں کے ڈٹ کر ریکارڈ بناتے رہے ’واچ‘ کرنے کی زحمت نہ اٹھائی۔ ڈاکٹر عافیہ پر اف تک نہ کی، اب افغان عورت کے کرکٹ نہ کھیل سکنے اور دوسرے شہروں کے ہوسٹلوں میں تنہا رہ کر ’اعلیٰ تعلیم‘ سے روک دیے جانے پر سراپا تشویش ہے!
ہم نے تو تازہ تازہ کیلی فورنیا سے ’بہن ریاست‘ کا رشتہ (پرویز الٰہی والے پنجاب کا) استوار کیا ہے۔ امریکا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست۔ ہمارے ہاں آسمانی سموگ کے ساتھ زمینی سیاسی طوفان، گردباد، غیرمتوقع جھکڑوں نے پنجاب کو آن لیا۔ ادھر وہ کیلی فورنیا جو پہلے سالہا سال خشک سالی اور جنگل کی خوفناک آگ کی لپیٹ میں آتا رہا اب مسلسل شدید برفانی طوفانوں، لامنتہا بارشوں کے ہاتھوں منجمد ہوا پڑا ہے۔ 400تا 600 فیصد معمول سے زیادہ، ہفتوں پر محیط بارش کی گرفت میں ہے۔ کوئی بدشگونی سی ہوگئی ہے دونوں ’بہنوں‘ کے ہاں! کیلی فورنیا میں زمین دھنسنے کے واقعات، کہیں پہاڑی ٹوٹ کر آن پڑی۔ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم۔ بڑی شاہراہیں دریا بن گئی۔ خوفناک مناظر ہیں۔ شمال تا جنوب ریاست پوری سیلاب کی زد میں ہے! نجانے ہماری صوبائی حکومت نے اپنی امریکی بہن کو امداد فراہم کی یا انہیں اپنی ہی پڑی رہی؟ کیلی فورنیا ریاست چکرائی پڑی ہے بھیگی، ٹھٹھری، ڈوبی ہوئی۔ پناہ بخدا! سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ ہمسائے برادر افغانستان پر چیں بچیں اور سات سمندر پار مسلم کش، برادر کش سے بہناپے کی تمنا؟
ان کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں!
یہ ’رنگِ حنا‘ (دنیا بھر کے مسلمانوں کا خون!) اتنا تیز چڑھا ہے کہ بائیڈن نے کیلی فورنیا کو شدید آفت زدہ قرار دے دیا ہے کیونکہ طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد!