وطنِ عزیر میں سیاسی بے یقینی نئی بات نہیں یہاں کسی کے آنے کی خبریں اور جانے کے اعلانات معمول ہیں جمہوری دورمیں خاص طورپر ایسی خبریں اور اعلانات عروج پر ہوتے ہیں عام انتخابات کا موسم قریب آنے کی بنا پر سیاسی جماعتیں متحرک ہونے لگی ہے اورہر جماعت انتخابی میدان میں اُترنے سے قبل عوام کو یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ اُسے ہی ووٹ دیں کیونکہ صرف وہی اُن مفاد کی نگہبانی کر سکتی ہے مگر ابھی مستقبل کے انتخابی نتائج بار ے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے جوں جوں انتخابی ماحول بنے گاعوامی پسندیدگی بارے بات کی جا سکتی ہے جیسا کہ 2008 میںعوام نے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کوکیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے 2013 میں بجلی کا مسئلہ تمام مسائل میں سرفہرست رہا اور ن لیگ ساری انتخابی مُہم کے دوران حل کرنے کی یقین دہانی کراتے رہی 2018 کے عام انتخابات میں بڑھتی کرپشن کا خاتمہ عوام کی پہلی ترجیح ٹھہرا لوگ بدعنوان سیاستدانوں کے محاسبے کے متمنی دکھائی دیے موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے انسدادِ کرپشن کے نکتے پر ہی انتخابی مُہم چلائی اورحیران کن طور پر لوگوں نے پذیرائی بھی دی اب اگلے برس 2023 میں ملک گیر عام انتخابات متوقع ہیں اگر کوئی اور اہم واقعہ نہ ہوا تودگرگوں ملکی معیشت انتخابی مُہم کا مرکزی نکتہ ہوگی اور ہر جماعت کی اولیں
کوشش ہو گی کہ وہ عوام کو یہ یقین دلا سکے کہ صرف وہی ملکی معیشت درست کر سکتی ہے ابھی تک کسی جماعت نے کوئی وعدہ ایفا نہیں کیا بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا ملنا تو درکنا ر ابھی تک ملوث لوگوں کا تعین بھی نہیں ہوسکا اسی طرح بجلی کے مسائل آج بھی موجود ہیں جبکہ انسدادِ کرپشن کا وعدہ کا کرتے کرتے حکومت اپنا عرصہ اقتدار پوراکرنے کے قریب آگئی ہے لیکن کرپشن کا خاتمہ تو ایک طرف اُلٹا ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوگیا ہے آمدہ برس معیشت کی بحالی کی آس کون سی جماعت دلاتی ہے جلد ہی اِس سوال کا جواب مل جائے گاماضی کے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ کاش کوئی جماعت معیشت کی بحالی کا وعدہ پورا کردے۔
مریم نواز نے پورے اعتماد سے کہا ہے کہ حکومت کے جانے کا وقت آچکا اب مہینوں یا ہفتوں کی بات نہیں بلکہ دنوں کی بات ہے اتنی بڑی بات انھوں نے کیوںکر کی آیا اُن کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں یا انھیں کسی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے اِس بارے کچھ معلوم نہیں نہ ہی بظاہرتبدیلی کے آثار ہیں اِس لیے فوری طور پر کسی بڑی تبدیلی کی بات پر یقین کرنے کو دل نہیں مانتا تبدیلی کی بات کوتسلیم کرنے میں تامل کی وجہ یہ نہیں کہ حکومت بہت مضبوط ہے یا اُس کی کارکردگی مثالی ہے اور یہ کہ تبدیلی کی صورت میں عوام اپنی حکومت کے شانہ بشانہ ہوسکتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ایک تو ایوانوں میں حکومتی اکثریت محض چند اتحادی ووٹوں کے سہارے قائم ہے اور یہ اتحادی بھی سخت خفا ہیں دوم مہنگائی اور بے روزگاری کی بنا پر عوام کا حکومت کی حمایت میں نکلنا بہت مشکل ہے سوم حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن کے پاس کوئی ایسی حکمتِ عملی ہی نہیں بلکہ ڈیل اور ڈھیل کے چکروں میں الجھی اپوزیشن خودبے بسی اور لاچارگی کی ایسی عملی تصویرہے جس کے پیشِ نظراِن ہائوس یا زوردار تحریک کے زریعے کسی نوعیت کی تبدیلی کا کوئی ایجنڈانہیں تبدیلی کی ایک ہی صورت ہے کہ عمران خان خود اسمبلیاں توڑ کر اپنی حکومت کا خاتمہ کردیں اور ایسا ہونا بعید از قیاس ہے زیادہ امکان یہی ہے کہ مدتِ اقتدار مکمل کرنے کے بعد اپنی اچھی یا بُری کارکردگی کے ساتھ وہ آئندہ عام انتخابات میں جانے کی کوشش کریں گے۔
دھرنے ،احتجاج اور مظاہروں کا وقت قریب آرہا ہے ویسے تووفاقی حکومت کوسندھ حکومت کی طرف سے مسلسل ٹکرائو کا سامنا ہے دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی ہوتی رہتی ہے مگراب تلخی بڑھتی جا رہی ہے اپوزیشن کی نا اتفاقی سے وفاقی حکومت آسودہ ہے کیونکہ رُخصت کرنے کی دعویدار اپوزیشن احتجاجی تحریک کے حوالے سے بھی ایک نہیں بلکہ منتشر ہے پی ڈی ایم کا 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف اگر مارچ کا اِرادہ ہے تو پیپلز پارٹی نے اُس سے پہلے ہی یعنی فروری کے آخری ہفتے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے کا اعلان کر رکھا ہے21جنوری کولاہور میں ہلکا پھلکا کسان مظاہرہ کر چکی اپوزیشن کے احتجاج کو غیر موثر کرنے کے لیے تحریکِ انصاف نے سندھ حکومت کے خلاف 27 فروری کو گھوٹکی سے کراچی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے جس سے پیپلز پارٹی کے لیے کافی مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے اگر وہ ساری توجہ اسلام آباد لانگ مارچ پر دیتی ہے تو سندھ میں پی ٹی آئی ،جی ڈی اے اورایم کیوایم وغیرہ عوام کو اکٹھا کرنے اورکامیاب مظاہرہ کر سکتی ہیں جس کے نتائج عام انتخابات میں پی پی کی نشستوں کمی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں اگر سندھ میں اپوزیشن کے احتجاج کو بے اثر کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے تو اسلام آباد کا لانگ مارچ متاثر ہو سکتا ہے اِس لیے نوجوان بلاول کو وسائل کے باوجود سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہوگا وگرنہ مستقبل میں کسی اچھے منصب کے حصول کا خواب تعبیر سے محروم ہو سکتا ہے بلدیاتی ترمیمی قانون کے خلاف پاک سرزمین پارٹی نے 30 جنوری کو تبت سنٹر سے وزیرِاعلیٰ ہائوس تک عوامی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اسی طرح ملکی سیاست میں تین میں نہ تیرہ میں شمار کی جانے والی جماعتِ اسلامی بھی خود کو منوانے کے لیے کوشاں ہے اور آج سندھ اسمبلی کے باہر شروع اُس کے کیے دھرنے کو23دن ہوگئے ہیں مگر سندھ حکومت نے بلدیاتی قانون کی واپسی کا عندیہ نہیں دیا اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ جماعت اسلامی کے اچھے دن گزر چکے اگر آئندہ بھی اُس نے کسی مقبول جماعت سے اتحادنہ کیا تو اسمبلیوں سے بالکل ہی باہر ہونے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔
کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں تحریکِ انصاف کو غیر متوقع طور پر شکست ہوئی ہے مگر ن لیگ اور پی پی کے بجائے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت بڑے شہروں میں واضح اکثریت سے جیت گئی جس سے اِس میں شائبہ نہیں رہا کہ حکمران جماعت کو بُری کارکردگی کی وجہ سے گرتی مقبولیت کا سامنا ہے اگر دوسرے مرحلے میں بھی اسی طرح کے نتائج آتے ہیں تو یہ اگلے برس کے عام انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں جس سے عام انتخابات کا نقشہ موجودہ حکمران جماعت کے لیے غیر ہموار ہو سکتا ہے علاوہ ازیں پندرہ مئی سے پنجاب میں شروع ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہارنے کی صورت میں حکمران جماعت پر اپوزیشن کے دبائومیں اضافہ ہو جائے گامگر یہ کہنا کہ تبدیلی کی راہ ہموار ہو جائے گا ابھی اِس پر یقین سے کچھ نہیں کیا جا سکتا البتہ حکومتی جماعت اگراپنا عرصہ اقتدار پورا کرتی ہے توایسامنقسم اپوزیشن کی بدولت ہی ممکن ہو گا۔