حکومتی زعما اور اپوزیشن راہنمائوں کے درمیان لفظی جنگ یوں تو کب سے اس انداز میں جاری ہے کہ لگتا ہے جیسے فریقین مورچوں میں بیٹھے ایک دوسرے پر زور شور سے گولہ باری کر رہے ہوں۔ حالیہ کچھ عرصے میں اس گولہ باری میں شدت ہی نہیں دیکھنے میں آئی ہے بلکہ فریقین کی لفظی جنگ کو سامنے رکھیں تو شاید یہ کہنا نا مناسب نہ ہو کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی اپنی ڈفلی بجائی اور اپنا اپنا راگ الاپا جا رہا ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے اگلے دن مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا اور اس کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور ان کے نائب جناب فرخ حبیب نے جو گوہر افشانی کی اس کو بھی سامنے رکھیں تو پتا چلتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے بارے میں کیسی کیسی ہوائی باتیں کرتے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ حکومت ہفتوں، مہینوں نہیں دنوں میں ختم ہو جائیگی۔ جبکہ جنا ب فواد چودھری نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ان (مریم نواز) کی باتوں پر ان کے بچے بھی ہنستے ہیں۔ سچی بات ہے محترمہ مریم نواز کے بیان اور جناب فواد چودھری اور ان کے نائب جناب فرخ حبیب کی بیانات کی جو روداد میڈیا میں آئی ہے ایسی نہیں ہے جس پر انہیں داد نہ دی جائے۔
محترمہ مریم نواز کا میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کی کوئی کارکردگی نہیں ۔ بے روزگاری ، مہنگائی اور بے حسی عروج پر ہیں۔ عمران کے ممبران اب اس کی عزت نہیں کرتے، انجام قریب ہے ،کابینہ ارکان بھی حکومتی کارکردگی پر تنقید کر رہے ہیں۔ جواب الجواب کے طور پر جناب فواد چودھری اور جناب فرخ حبیب کا فرمان تھا ۔ حکومت گرانے کے چکر میں چار سال گزار دیئے۔ اسی چکر میں یہ اگلے پانچ سال بھی گزار دیں گے۔ مریم صفدر ہارے ہوئے قافلے کا حصہ ہیں۔ آر پار کرنے والے اب خوار ہو رہے ہیں۔ جناب فرخ حبیب کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ نواز شریف پر کرپشن ثابت ہوئی ہے وہ سرٹیفائیڈ چور و ڈاکو ہیں ۔انھوں نے ملک کو لوٹا اور سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دیا۔ نواز شریف کوئی علاج نہیں کرا رہے، وہ بس بھگوڑے ہیں اور ملک سے باہر چھپے ہوئے ہیں۔ وہ واپس ائیں تو ان کا ٹھکانہ اڈیالہ جیل ہے۔ مسلم لیگ ن کے مزید چار لوگ بھی سامنے آگئے ہیں انہیں بھی کسی صورت میں راہ فرار نہیں ملے گی ۔ پہلے این آر او مل جا تا تھا اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
محترمہ مریم نواز اور جناب فواد چودھری اور فرخ حبیب کے ان فرمودات اور ارشادات میں جو کچھ کہا گیا ہے اور جو دعوے کیے گئے ہیں سمجھ نہیں آتی کہ کون ہے جو انہیں ان پر عمل کرانے سے روک رہا ہے۔ محترمہ مریم نواز کہتی ہیں کہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے تو ان سے بصد ادب استفسار کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے حکومتی رخصتی کے لیے کونسے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے یہ یقین سامنے آتا ہو کہ واقعی حکومت کی رخصتی کے دن قریب آگئے ہیں۔ محض زبانی کلامی دعوے کرنے یا غصے اور ناراضگی کا اظہار کرنے سے توحکومتیں رخصت نہیں ہو ا کرتیں۔ اسی طرح جناب فواد چودھری اور جناب فرخ حبیب سے مودبانہ گزارش کی جا سکتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف اگر سرٹیفائیڈ چور ہیں اور ان کا ٹھکانہ اڈیالہ جیل ہے تو آپ کی حکومت نے انہیں باہر کیوں جانے دیا اور اگر جانے ہی دے دیا تھا تو انہیں واپس لاکر اڈیالہ جیل میں ڈالنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ محض چور چور ، بد عنوان بدعنوان اور نااہل نااہل کی گردان دہراتے رہنے سے تو کچھ نہیں ہوگا۔
اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن میں محض مریم نواز ہی حکومت کے جانے کے دعوے نہیں کر رہی ہیں بلکہ اور بھی بہت سارے راہنما یہی راگ الاپتے نظر
آتے ہیں۔ یہ آج سے نہیں بلکہ کب سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح فواد چودھری اور فرخ حبیب کے علاوہ بھی جناب عمران خان سمیت کئی حکومتی زعما ایسے ہیں جو جب تک نااہل ، کرپٹ ، بدعنوان ، چور ، ڈاکو ، لٹیرے اور این آر او نہیں دونگا نہ کسی کو چھوڑوں گا کی ڈوفلی نہ بجائیں تو ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اس کی تفصیل میں جائیں تو کیا کیا باتیں اور کیا کیا دعوے اور فرمودات سامنے نہیں آتے۔ اپوزیشن میں دیکھا جائے تو مولانا فضل رحمان تو کب سے حکومت کو گرانے کی باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج کل جناب بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد گرامی جناب آصف علی زرداری بھی بڑے تواتر سے حکومت کے جانے کے دعوے کرنے لگے ہیں۔ جناب بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو گرانے کے لیے 27فروری کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف عد م اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے یا حکومت کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اور دوسرے کئی اہم راہنما بھی زبانی کلامی یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ تحریک انصاف کے کم از کم اٹھارہ ارکان قومی اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں جو یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں انہیں اگر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی باضابطہ یقین دہانی کرا دی جائے تو وہ کسی وقت بھی اپنی جماعت جو اس وقت برسرِ اقتدار ہے
کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں۔ شاید بغاوت کے یہی امکانات تھے کہ اپوزیشن کی طرف سے ہی نہیں میڈیا کے ذمہ دار حلقوں میں بھی ان امکانات اور خدشات کا ذکر ہوتا رہا ہے کہ حکومت کو قومی اسمبلی میں منی فنانس بل کی منظوری کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ شاید ان ہی امکانات سے ملا ہوا حوصلہ تھا کہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بلاول بھٹو زرداری سمیت اپوزیشن کے خواجہ آصف، رانا تنویر، رانا ثنا اللہ، خورشید شاہ اور مولانا اسد جیسے راہنماوں نے قومی اسمبلی میں ایسی پرجوش اور، غم و غصے سے بھری ہوئی تقاریر کیں کہ لگتا تھا کہ وہ ایوان میں حکومت کا تختہ اُلٹ کر ہی دم لیں گے۔ لیکن نتیجہ کیا سامنے آیا، وہی ڈھاک کے تین پات کہ حکومت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے 146ووٹوں کے مقابلے میں 163ووٹ حاصل کرکے بڑی آسانی کے ساتھ منی فنانس بل منظور کرانے کا معرکہ سر کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ منی فنانس بل کی منظوری سے کم و بیش 140اشیاء پر سبسڈیز ختم کرکے 17فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے جو مہنگائی کا طوفان آچکاہے اور مزید آنے والا ہے اس سے حکومت کو عوام کی جس ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا ایک عکس حکومت خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی اور ان کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علما اسلام کی ریکارڈ اور یادگار کامیابی کی صورت میں دیکھ چکی ہے۔
ملک میں سیاسی صورت حال کے یہ معروضی پہلو یقینا اہم ہیں لیکن ان سے اہم تر پہلو یہ ہے کہ حکومتی زعما ہوں یا اپوزیشن راہنما ان کا ایک دوسرے کے خلاف سار ا زور ایک دوسرے پر الزام تراشی دھرنے ، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور عوام میں اپنی مقبولیت کے زبانی کلامی دعوے کرنے پر چلا آرہا ہے۔ حکومتی زعما اور اعلیٰ عہدیدار مسلم لیگ کی قیادت کو بد عنوان ، کرپٹ اور قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث چور ، ڈاکو اور لٹیرے کہنے کی گردان دہراتے چلے آرہے ہیں لیکن آج تک ان کے خلاف بد عنوانی یا قومی دولت کی لوٹ مار کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کر سکے۔ اسی طرح اپوزیشن راہنما بھی حکومت کی نااہلی ، نالائقی ، جناب عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بطور سلیکٹڈ وزیر اعظم وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے اور اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے بر سر اقتدار رہنے کے طعنے دینے کے ساتھ ان کی حکومت کو گرانے کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے میں آج تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ ستم ظریفی اس حد تک کہ پارلیمنٹ بالخصوص قومی اسمبلی کے ایوان میں بعض اوقات ایسے لگتا ہے جیسے اپوزیشن ارکان بے بسی ، بے کسی ، بے رخی اور باہمی عدم واعتماد کے ساتھ اپنی نمائندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔
بلاشبہ صورت حال کی یہ نقشہ گری کسی امید افزائی یا حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے راستے روکنے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خاتمے کے دعوئوں کو حقیقت کا روپ دینے کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔ تاہم پچھلے کچھ ہفتوں سے جناب عمران خان کی حکومت کی رخصتی کا موضوع ایسا ہے جو ریگولر اور سوشل میڈیا کے حلقوں میں ہی پورے زور شور سے زیر بحث نہیں ہے بلکہ زبان ،زد خاص و عام بھی ہے۔ ہر طرف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل نہیں رہی ۔ وہ خود بھی اگلے تین ماہ کو بڑا اہم قرار دے رہے ہیں۔ ان کے وزراء مبینہ ڈیل اور ڈھیل کے قصے دہرائے جا رہے ہیں اور چار مسلم لیگی راہنمائوں کی مبینہ ملاقاتوں کا ذکر مسلسل کیے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟ کیا اس کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے یا اسے اپنی اپنی ڈفلی بجانے اور اپنا اپنا راگ الاپنے کا معاملہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔