برصغیر میں جب یونین جیک اتارا گیا تواس وقت تک برطانوی انجینئرز سندھ طاس منصوبہ کے تحت دُنیا کا سب سے بڑا نظام آبپاشی مہیا کر چکے تھے،جس پر 1909ء میں حکام نے غوروفکر کیا تھا وہ پنجاب کو برصغیر کے لئے گودام بنانے کے خواہاں تھے،جس کا ایک مقصد سیلاب کے دنوں میں پانی کا ذخیرہ کرنا اور ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچانا بھی تھا،اس لئے بہت سے دریائوں پر بند باندھے گئے اور بیراج تعمیر ہوئے۔1932ء میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول کردُنیا کے سب سے بڑے نظام آبپاشی کو متعارف کرایا گیا،بعد ازاں کالا باغ کے مقام پر دوسرا بیراج بنایا ، مگر تقسیم ہند کے بعد سب کچھ ہی بدل گیا،سر سیرل کلف کی غیر منصفانہ تقسیم نے اس نظام کی پوری فیبرکس کو ہی برباد کر کے رکھ دیا، اس ناانصافی کی کوکھ سے مسئلہ کشمیر کے علاوہ دریائوں کے پانی کی تقسیم بھی متنازع ہو گئی ہے۔
برطانوی حکام خواہاں تھے کہ دونوں ریاستیں آبپاشی کے نظام کو ایک اکائی کے طور پر جاری رکھیں،بٹوارہ کے وقت پنجاب کی23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں تھیں، لیکن نہرو نے انکی خواہش کے برعکس بڑے سیدھے الفاظ میں کہہ دیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہیں،شائد اُسے گمان تھا کہ کشمیر میں مسلم اکثریت ہونے کے باوجود ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا،اور کشمیر پر قابض ہونے کی صورت میں بھارت کی دریائوں پر بالا دستی برقرار رہے گی،امکان غالب ہے کہ نہرو اور ہندو راجا کے مابین اندرونی طور پر کوئی خفیہ ساز باز ہو چکی تھی،ریڈکلف نے مسلم اکثریت کا علاقہ گورداسپور انڈیا کے حوالہ کر کے کشمیر کا جو زمینی راستہ دیا جس سے بھارت کا دریائوں پر قابض ہونا مزید آسان ہو گیا ،دریائے راوی اور ستلج پر قائم ہیڈ ورکس بھارت کے قبضہ میں آچکے تھے جس کے پانی سے پاکستان کی سرزمین پچاس برس سے سیراب ہورہی تھی،اس زعم میں ہندوستان عالمی راہنمائوں کی کاوش کے باوجود سندھ طاس معاہدہ کرنے پر رضا مند نہ تھا۔
قیام پاکستان کے بعدکوٹری،چشمہ، گدو بیراج جب بالترتیب مکمل ہوئے ،تو پانی کی مشکلات میں قابو پانے میں مدد ملی لیکن مسئلہ حل نہ ہوا،1960 میں ہماری ریاست اس پوزیشن میں آچکی تھی اور مفادات کاتوازن تقسیم کی نسبت ہموار ہو ا تو بالآخر ورلڈبنک بھارت اور پاکستان کے مابین معاہدہ پر دستخط کرانے میں کامیاب ہو گیا۔اس کے لئے انڈس کمیشن مستقل بنیادوں پر بنایا گیا،یہ معاہدہ سندھ طاس قرار پایا، جس کے تحت مغربی دریا جہلم ،چناب، سندھ کا پانی پاکستان اور مشرقی دریا ستلج ،راوی ،بیاس کا پانی بھارت کو استعمال کر نے کی اجازت دی گئی، یہ بھی طے ہوا کہ ہر چھ ماہ بعد کمیشن کا اجلاس باقاعدگی سے ہوا کرے گا، جس میں تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے گا، کرونا کی وجہ سے اس کے اجلاسوں میں تعطل آیا ہے۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدہ پر من وعن عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالت کے دروازہ پر دستک دینا پڑی ہے،دریا ئے چناب اور جہلم پر ڈیم کی تعمیر پر اسلام آباد نے اعتراضات اٹھائے تھے ،کہا جاتا ہے کہ ستر کی دہائی میں بھارتی سورمائوں نے تیس سے زائد ڈیم کشمیری د ریائوں پر تعمیر کرنے کا قصد کیا تھا وہ اس پر عمل پیرا ہیں، 2013 میں عالمی عدالت ہیگ نے بھارتی حکام کو ہدایت کی، کہ وہ ماحولیاتی بہائو کو برقرار رکھنے کے لئے نو کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی چھوڑنے کا پابند رہے گا، عدالتی فیصلہ کے باوجود بھارت حکم عدولی کررہا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کے موقع پر عالمی اداروں کے سامنے بھارتی حکام نے تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پاکستان کے دریائوں کے بہائو میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا، مگراِس وقت بھی بھارت دریائے راوی پر شاہ پور کنڈی پراجیکٹ اور دریائے بیاس کے اوجھ پور مقام پر اوجھ ڈیم کی تعمیر سے پانی کے بہائو کو متاثر کر رہا ہے۔
عالمی قوانین کے مطابق بھارت ماحولیاتی بہائو، چرند، پرند اور جانوروں کے لئے 40 فیصد پانی اِن دریائوں میں چھوڑنے کا پابند ہے جو اِسکے زیر تسلط ہیں، مگر وہ پانی اُس وقت چھوڑتا ہے جب اونچے درجہ کا سیلاب ہو تا ہے تاکہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو،مشرقی دریا جن سے بھارت فیض یاب ہورہا ہے اِن کا بہائو جنوبی پنجاب کی طرف بھی ہے جس میں قانونی طور پر پانی چھوڑنا بھارت پر لازم ہے، پاکستان نے اسکی رقم بھی معاہدے کے باعث ادا کی ہے، چندسال قبل دریائے ستلج کے مقام پر سول سوسائٹی کی طرف سے انسانی ضرورت کیلئے پانی چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس کے بعد لمبی خاموشی دیکھنے کو ملی ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد توانائی کی پیداوار، پانی کا اہتمام صوبہ جات کا عنوان بن چکا ہے، ان حالات میں عوامی نمائندگان کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دریائے راوی، ستلج، بیاس میں40 فیصد پانی کی فراہمی کے لئے آواز اٹھائیں،یہ پانی اگرچہ زراعت کیلئے شائد نا کافی ہو ،لیکن باغبانی، مال مویشی اور جنگلات کیلئے انتہائی فائدہ مند ہو گا،تھل اور چولستان دو بڑے صحرا یہاں پائے جاتے ہیں، پانی وہاں کے باشندوں کی بنیادی ضرورت ہے جن کا روزگار لائیو سٹاک سے وابستہ ہے، چولستان کی زمین بعض بااثر حضرات کو بھی الاٹ کی جا چکی ہے، پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے نئی نہر بھی بنائی گئی ہے، اس کے لئے عام کسان کے پانی سے کٹوتی کی گئی ہے، وہ علاقہ جات بطور خاص متاثر ہوئے ہیں جہاں زیر زمیں پانی کڑوا ہے۔
ہماری خوش فہمی یہ ہے کہ اگر بین الاقومی قانون کی روشنی میں بھارت مذکورہ دریائوں میں پانی چھوڑ دیتا ہے تو دریائوں کے کنارے نئے درخت لگائے جاسکتے ہیں، ڈرپ آبپاشی کے نظام کے اطلاق سے چھوٹے چھوٹے قطعات میں سبزیاں صاف پانی میں اگائی جا سکتی ہیں، جانوروں کے لئے چارہ میسر آ جائے گا، صحرا کے لوگ بھی اس کو سٹور کر سکیں گے، ان میں مچھلیوں کی پرورش ممکن ہو سکے گی۔
المیہ یہ ہے کہ دریائے بیاس پر سرکاری اداروں نے پہرہ نہیں دیا، اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دریا کی زمیں پر قبضہ مافیا نے ہاتھ صاف کر لئے ہیں، کسان نے ملحقہ زمین کو اپنی ملکیت بنا لیا ہے، یہی حال دیگر دریائوں کا بھی نظر آرہا ہے،یہ عمل قومی جرم کے مترادف ہے۔
موجودہ سرکار اس وقت سرکاری اراضی وا گزار کرانے کے لئے متحرک ہے، اِسی فورس کو یہ بھی ٹاسک دیا جائے کہ وہ دریائی زمین بھی خالی کرائے تاکہ ہندوستان کو دریائوں میں پانی نہ چھوڑنے کا کوئی بھی بہانہ نہ ملے۔ خشک ہونے والے دریائوں میں پانی چھوڑنے کی مہم عالمی سطح پر چلائی جائے، اس ضمن میں سوشل میڈیا بھی موثر ہوسکتا ہے، یہ پانی پاکستان بالخصوص جنوبی پنجاب کے عوام کا حق ہے ، عوامی نمائندگان اس حوالہ سے اپنی توانا آواز پارلیمنٹ میں لازم بلند کریں، جب بھی سندھ طاس کمیشن کا اجلاس منعقد ہو 40 % پانی کی عدم فراہمی کا ایجنڈا سر فہرست ہو، ہندو بنیا اورریڈکلف کی بد نیتی کشمیری راجہ کی بزدلی ہی نے سندھ طاس کی خوبصورتی کو بد صورتی میں بدل کر پانی کے فطری بہائو کے آگے بند باندھنے کی جو بھونڈی حرکت کی ہے اس کی اجازت کوئی بھی قانون نہیں دیتا۔