کراچی: سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شہر میں غیر قانونی شادی ہالز، شاپنگ مالز اور پلازوں کی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے کراچی میں رہائشی عمارتوں اور گھروں کو کمرشل مقاصد میں تبدیلی کرنے اور رہائشی پلاٹوں پر شادی ہالز، شاپنگ سینٹرز اور پلازوں کی تعمیر پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ کراچی میں کوئی گھر گرا کر کسی قسم کا کمرشل استعمال نہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے شہر میں 30 سے 40 سال میں بننے والے شادی ہالز، شاپنگ سینٹرز اور پلازوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ ساتھ ہی سندھ حکومت سے شہر کو 40 سال پرانے حال میں بحال کرنے پر تجاویز بھی مانگ لی ہیں جب کہ سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ بندوق اٹھائیں، کچھ بھی کریں، عدالتی فیصلے پر ہر حال میں عمل کریں۔ احکامات پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی افتخار قائم خانی کو گھر بھیج دیں گے۔
جسٹس گلزار نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ ختم کریں لوکل حکومت، یہ خود کو سٹی فادر کہلاتے ہیں اور انہیں الف ب بھی معلوم ہے سٹی فادر کی۔
جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی ایس بی سی اے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس شہر کو وفاق یا سندھ حکومت کے ماتحت کر دیں۔ ان سے شہر نہیں چلتا تو سندھ حکومت شہر کو ٹیک اوور کر لے۔
عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کام نہیں کر سکتے تو عہدے پر کیوں چمٹے بیٹھے ہو کیونکہ آپ بھی چند دنوں بعد کینیڈا چلے جائیں گے۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے شہر کو لاوارث، جنگل اور گٹر بنا دیا۔ اس شہر کا حال دیکھ کر کسی کو شرم آتی ہے اور ایس بی سی اے والوں کو صرف اربوں روپے بنانے کی پڑی ہے۔
معزز جج نے ڈی جی ایس بی سی اے سے مکالمہ میں کیا کہ آپ اور آپ کے افسران آگ سے کھیل رہے ہیں لیکن کچھ تو شرم کریں بس پیسا چاہیے۔ کوئی خیال نہیں اس شہر کا اور کبھی دیکھا آپ کے افسران کتنی عیاشیوں میں رہ رہے ہیں۔
عدالت نے 4 ہفتوں میں جام صادق علی پارک، عبداللہ جیم خانہ اور کے ایم سی سے فوری تجاوزات خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں ہر قسم کی تجاوزات فوری گرائی جائیں اور بتایا جائے شہر میں بڑی، بڑی عمارتیں کیسے گرائی جائیں۔
عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو کمرشل عمارتوں کے لئے این او سی جاری کرنے سے روکتے ہوئے اسے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سے مشروط کرنے کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے ایس بی سی اے کے مالی معاملات پر اکاؤنٹنٹ جنرل سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے اپنے حکم میں کہا کہ جو عمارت اصل ماسٹر پلان سے متصادم ہے انہیں گرائیں اور شہر کو 40 سال پہلے والی پوزیشن میں بحال کریں۔ چاہیں کتنی عمارتیں ہوں سب گرائیں، پارک، کھیل کے میدان اور اسپتالوں کی سب اراضی واگزار کرائیں۔
معزز جج نے ریمارکس دیے حد ہو گئی کہ سرکاری کوارٹرز پر 8، 8 منزلہ عمارتیں بنائی جا رہی ہیں اور آپ لوگوں نے کیا چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ سب نے ملی بھگت سے مال بنایا اور شہر تباہ کر دیا۔ انہوں نے مزید کیا یہ ان کے باپ کا شہر ہے جو مرضی آئے کریں، گلی گلی میں شادی ہال، شاپنگ سینٹر اور پلازوں کی اجازت دے کون رہا ہے۔ کیا اس شہر کو وفاق کے حوالے کردیں۔
اس موقع پر ڈی جی ایس بی سی اے افتخار قائم خانی نے کہا کہ کام ہو رہا ہے اور فیصلے پر عمل کریں گے جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ کم سے کم بولیں آپ کو فارغ کر دیتے ہیں کیونکہ آنکھیں بند کر کے بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ دبئی اور امریکا میں مال جمع ہو رہا ہو گا۔افتخار قائم خانی نے عدالت میں کہا کہ معافی چاہتا ہوں،آئندہ فیصلے پرعمل ہو گا۔
اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معافی کیسی۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ اب بھی شادی ہالز کی اجازت دے رہے ہیں۔ قیوم آباد، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد ہرطرف شادی ہال بنا ڈالے۔ پہلے لوگ گھروں کے باہر شادی کرتے تھے اب نیا کلچر بنا ڈالا۔ شادی ہال کرائے پر لینے کے لیے لوگوں کو کروڑوں روپے بنانے پڑتے ہیں۔