کولاراڈو: دماغی کینسر کے ایسے مریض جن پر روایتی ادویہ اور کیموتھراپی کارگر نہ ہو ان کے لیے ملیریا کی ایک دوا نے امید کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔
ماہرین نے کلوروکین دوا کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ اس سے تین ایسے مریضوں پر اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں جن پر کینسر کی روایتی دوائیں بے اثرہونے لگی تھیں۔ اس دوا نے دماغی رسولیوں پر اثر انداز ہوکر انہیں کچھ اس طرح ’’ری سیٹ‘‘ کردیا کہ وہ کینسرمار دوا سے کم ہونے لگیں۔
یونیورسٹی آف کولاراڈو میں بچوں کے سرطان کے ماہرکے مطابق تین مریضوں پر ملیریا کی دوا کے طبی فوائد حاصل ہوئے ہیں اسے دیکھ کر ہم مسرور ہیں کیونکہ بسا اوقات ہم دواؤں کا ایسا رویہ نہیں دیکھتے۔ ان مریضوں میں ایک ایسی 26 سالہ لڑکی بھی شامل تھی جس کے پاس زندی کے چند ہفتے تھے لیکن اب اس کی دماغی رسولی نے کیموتھراپی کے سامنے سکڑنا شروع کردیا ہے جو پہلے کیموتھراپی سے ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی۔
کیموتھراپی میں مشکلات کے بعد خاتون کو ’’ویمرافینب‘‘ دوا کھلائی گئی جو کینسر کو روکتی ہے لیکن خدشہ تھا کہ کیموتھراپی کے بعد سرطانی ٹیومر اس دوا کو بھی بے بس کردے گا۔ اسی لیے ڈاکٹروں نے اس کے علاج پر غور شروع کردیا۔ مریضہ کے علاج کے لیے ڈاکٹروں نے ایک انوکھا خلیاتی (سیلولر) راہ نکالی جسے آٹوفیجی کہتے ہیں۔
آٹوفیجی جسم کا قدرتی عمل ہے جس میں مردہ اور ٹوٹے پھوٹے خلیات ختم یا ری سائیکل ہوکر دیگر تازہ خلیات کے لیے راستہ بناتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ سرطانی رسولیاں آٹوفیجی عمل کو استعمال کرتے ہوئے خود کو توانا رکھتی ہیں اور ری سائیکلنگ کو دوا کے سامنے لاکر دوا کو بے اثر بنادیتے ہیں۔ لیکن کلوروکین آٹوفیجی کو روکتی ہے اور اسی مناسبت سے اسے رسولی پر آزمایا گیا اور اس میں ویمرافینب بھی ملاکر دی گئی۔ خوش قسمتی سے مریضہ پر اس دوا کا اثر ہوا اور اب چار ہفتوں بعد وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے اور اپنے ہاتھ پیر ہلاسکتی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق کلوروکین نے رسولی کو تباہ نہیں کیا بلکہ اسے کمزور کیا تاکہ کینسر کی دوا اس پر اثر کرسکے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ملیریا کی دوا نے دماغی کینسر گلائیو بلاسٹوما کا علاج ممکن بنایا اور مریضہ کی رسولی سکڑ کر بہت حد تک چھوٹی ہوگئی۔ یہ تحقیق ای لائف میں شائع ہوئی اور اب ماہرین اسے مزید مریضوں پر آزمائیں گے۔ملیریا کی دوا دماغی کینسرکے خلاف بھی مؤثر