میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو ہجوم عاشقاں و غلاماں سے مخاطب ہوتے ہوئے پہلے الفاظ زبان اقدس سے ادا فرمائے، کوئی شخص جہنم میں نہیں جا سکتا صدقہ کے سبب وہ چاہے دو بول کسی کی دل جوئی کے لیے ہوں۔ (مفہوم)
سیاسی، سماجی اور معاشرت کے حوالہ سے ہمارے ہاں مذہب، فرقہ، لسانیت، قومیت کی فروخت سب سے زیادہ ہے۔ افسوسناک پہلو ہے کہ ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی راہنما اپنے مداحین سے دو حرف دلجوئی کے بھی نہیں بول سکتے۔ یہ قربانی کیا دیں گے؟
چند دن پہلے محترمہ مریم نواز صاحبہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ اپنی ایک مداح کو دھتکار کے انداز میں دور رہنے کا اشارہ کر رہی ہیں۔ 43 سال پہلے 51 سالہ نوجوان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سولی چڑھا دیا گیا۔ آج تیسری نسل ان کی مداحی سے گزر رہی ہے۔ آج کے سیاستدان کبھی ان کی زندگی اور سیاسی زندگی کا بغور جائزہ لیں مشاہدہ کریں۔ مجھے تو ان کی غریب پروری، پسے ہوئے طبقات کے ساتھ گزرے ہوئے ان گنت لمحے یاد ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر شہید، جناب بھٹو کی بات کرنے والے کو جیالا کہہ کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ عمران خان ابھی سیاست میں نہیں تھے، سٹیڈیم میں ایک بچہ بھاگتا ہوا ان تک پہنچا کہ آٹو گراف لے سکے۔ عمران خان نے بچے کو تھپڑ مار دیا۔ گوجرانوالہ کے ایک خوبرو نوجوان نے اس واقعہ پر کہا یہ اچھا انسان ہے نہ سپورٹس مین۔ اگر اس نے یہ تھپڑ میرے بیٹے کو مارا ہوتا تو میں اس کو سٹیڈیم میں ’’لما پا کے‘‘ مارتا۔ زوال عروج کو نہیں ہمیشہ تکبر کو آتا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی کہے کہ کوئی (احد) پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ گیا تو یقین کر لینا لیکن اگر کوئی کہے کہ کوئی اپنی فطرت بدل گیا تو یقین نہ کرنا۔ ہم کیا سادہ قوم ہیں کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی دام میں آ جاتے ہیں۔ اقتدار، حسن، امارت و مقبولیت کا تو آپ نے تکبر غور فرمایا ہو گا لیکن علمیت کا تکبر ایسا ہے جو قبر کی دیواروں تک انسان کی تذلیل اور معاشرتی حیثیت میں انحطاط کا باعث رہتا ہے۔
موجودہ ہائبرڈ نظام کا جو ناکام تجربہ ہے اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ ابھی اس کا ادراک نہیں۔ ویسے بھی قانون بن گیا ہے کہ تنقید کرنے والے قابل تعزیر ہوں گے، تنقید کا کینوس ابھی معلوم نہیں۔ پتا نہیں مولوی تمیز الدین کیس، جسٹس منیر، جناب بھٹو کیس، محترمہ نصرت بھٹو کیس، پانامہ سے اقامہ کیس کا حوالہ دینا قابل تعزیر ہے کہ نہیں۔ نئے آرڈیننس پر کہوں گا کہ عقاب سنگینوں کے سائے میں نہیں بٹھائے جا سکتے۔ شاہ محمود قریشی کے جلوس پر بھٹو صاحب کا تدبر یاد آیا۔ پی این اے کی تحریک میں مشورہ دیا گیا کہ پیپلز پارٹی بھی جلسوں جلوسوں کا بندوست کرے، گریٹ بھٹو نے کہا کہ (میں ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتا)۔ بلاول بھٹو کے مقابلے میں ان کی پارٹی کا سابقہ پنجاب کا سیکرٹری جنرل موجودہ حکومت کی طرف سے جلوس نکال رہا ہے۔
قانون سازی اور عوام میں اترنے کے رویے اگر فرعونیت کے سفر کو جاری رکھے رہے تو یقین کیجئے کہ مارشل لا، صدارتی، پارلیمانی اور نہ ہی ہائبرڈ نظام چل سکے گا۔ یہ لوگوں کا منہ چڑاتی ہوئی، مذاق اڑاتی ہوئی سڑکوں پر قیمتی گاڑیاں، فارم ہاؤسز، اربوں کی جائیدادوں کی ملکیت والے خانے میں دو ٹکے کے لوگوں کے نام درج ہیں۔ تقریباً ہر بڑی دولت کے پیچھے اس سے کئی گنا بڑے جرم کا ارتکاب چھپا ہے۔ بیوروکریسی کے لیے تو ہمارے دوست جناب مقصود احمد بٹ (روزنامہ جنگ) کہتے ہیں کہ یہ فرعون کے بچھڑے اور بچ جانے والے لوگ ہیں جو لشکر میں شامل نہ تھے۔ سیاسی شعور کے حوالے سے گوجرانوالہ کے محمد سلیمان کھوکھر، جو اپنا تعارف آپ ہیں، کا موازنہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ جو ضیاالحق کی مدح سرائی میں تقریر میں یہ کہہ گئے کہ لوگ تو ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھتے ہیں ضیاالحق (کیا نام
کے تکیہ کلام) گھٹنوں سے اوپر شلوار رکھتا ہے۔ آمریت کی بربریت، رعونت اور ظلمتوں کے دست راست رہنے والے آج چلے ہیں نظریاتی بننے۔ میاں نواز شریف بلاشبہ چلتے لمحے میں مقبول ترین رہنما ہیں (پنجاب میں)۔ چاہیں تو نظریاتی لوگوں، عوام دوستوں اور غریب پروروں کو ٹکٹ دے کر نظام کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے وہی پرانی فلمیں ری مکس کر کے دوبارہ چلائیں تو عمران خان سے بھی کم وقت لینگے اور غیر مقبول ہو جائیں گے۔ حکمران طبقوں نے اپنے وتیرے نہ بدلے تو عوام غالب کی زبان میں ضرور بات کریں گے۔
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
محترمہ مریم نواز محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے نسبتوں کا اظہار فرماتی رہتی ہیں، گوگل یوٹیوب پر ہے جب کراچی میں 2007 میں سانحہ کارساز والے دن کراچی ایئرپورٹ سے باہر آئی تھیں۔ کنٹینر پر ایک صحافی ان کا انٹرویو کر رہا تھا، بی بی صاحبہ نے دیکھا دور غریب مسکین لوگ ان کے استقبال میں بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔ فوراً صحافی سے کہا کہ وہ ناراض ہو جائیں گے، ان استقبالیوں کی طرف اشارہ کیا اور اپنی بات کو دہرایا کہ اگر میں آپ سے بات کرتی رہی تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ اور کہاں مریم بی بی آپ نے غریب کو دھتکار دیا۔۔۔ گریٹ بھٹو کو خبر ہوئی کہ گوجرانوالہ میں امین عرف مینا چائے والا جس کے کھوکھے پر جناب بھٹو صاحب کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، بھٹو مخالف بدمعاشوں نے اسے گالی دے کر کہا، ’’اوئے تینوں پٹو جاندا اے‘‘۔ وہ مسکین چپ کر گیا یہ بات بابا فاضل رشید نے بھٹو صاحب کو سنائی۔ کچھ وقت کے بعد بھٹو صاحب گوجرانوالہ تشریف لائے اور کسی جگہ جانے سے پہلے سیدھے امین عرف مینا چائے والے کے پاس گئے اور کہا کہ امین ہمیں چائے نہیں پلاؤ گے؟۔ چائے پی چند سو روپے دیے اور آتے ہوئے کہا کہ ان بدمعاشوں سے کہنا، بھٹو آپ کو جانتا ہے۔ موضوع سے ہٹ گیا دراصل بھٹو پہلی محبت کی طرح کسی کو نہیں بھولتے۔ ایک زمانہ ہوا لاکھوں کی کرپشن کی خبر نہیں پڑھی، اربوں، کھربوں اور ڈالروں میں کرپشن ہوتی ہے۔ صدارتی، پارلیمانی اور نہ ہی کوئی ہائبرڈ نظام اب صرف مالیاتی نظام تقدیر بدل سکتا ہے۔ کیپٹلزم سے اشتراکیت کا سفر ناگزیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ روس، امریکہ، یوکرائن، چین کی چپقلش کا نزلہ پاکستان پر ہی نہ گر جائے، اس کا ادراک حکمرانوں کو نہیں۔ لہٰذا داخلی و خارجہ محاذ پر 24 گھنٹے جاگنے کی ضرورت ہے۔ ایک ملاں کی ویڈیو دیکھی، خادمین میں سے دو پاؤں، ایک سر کی مالش کر رہا ہے، دیگر باقی اعضاء کے مساج کے درپے ہیں۔ میں ڈر گیا کہ شاید مولوی صاحب بیہوش ہو گئے ہیں یا پھر گوگا گوجرانوالیہ سے بیعانہ پکڑ رکھا ہے، اگلے جمعہ کو دنگل ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ہر شعبہ زندگی کے اکابرین ایک جیسے ہیں بس۔ ذلتوں کے مارے لوگ ہیں، دعووں، وعدوں کے مارے لوگ ہیں کہ!
اگر لکھا تھا مقدر میں مقدر سے ہی لڑنا
آدم کو بھی صاحب مقدور کیا ہوتا!!!
رویے نہ بدلے تو معاشی نظام معیشت اشتراکیت پر منتج ہو گا جو خالصتاً معاشی نظام ہے۔ ہم سے بڑی سازش کی گئی جو اس کو اسلام کے خلاف تعبیر کیا گیا ورنہ انارکی تو دستک دے چکی۔