یہ حقیقت ہے کہ ملک اْس وقت ترقی کرتے ہیں جب آپ اپنا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے رکھتے ہیں ، اور مثبت چہرہ یہ ہے کہ ریاست میں امن و امان ہو، قانون کی بالادستی ہو، کرپشن نہ ہو، خواتین کے حقوق سلب نہ کیے جا رہے ہوں، سیاسی قائدین مخلص ہوں یا اقلیتیں آزادانہ اور بلا خوف و خطر زندگی گزار رہی ہوں۔ لیکن اس کے برعکس معذرت کے ساتھ وطن عزیز کا جو چہرہ دنیا میں دکھایا جاتا ہے وہ انتہائی مسخ شدہ ہے، اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم منظم قوم نہیں ہیں، ہمیں ایک سازش کے تحت بکھیر دیا گیا ہے، اور پھر اس کے پیچھے حتی الامکان بھارتی، مغربی اور امریکی لابنگ اورسازشیں ہو سکتی ہیں۔ کیوں کہ ہم اگر کوئی اچھا کام بھی کرتے ہیں تو وہ خراب بنا کر دنیا کے سامنے رکھا جاتا ہے، یا اْس میں سے اپنے مطلب کی چیزیں نکال کر دنیا کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’یہ ہے پاکستان کا اصل چہرہ‘‘! جیسے گزشتہ دو تین سال میں یہاں عورت مارچ نکالا جاتا ہے، جس میں ذو معنی فقروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ عورت مارچ تک تو بات ٹھیک ہے، مگر اْسے جس قدر غلط رنگ دے دیا جاتا ہے اْس سے نا صرف پاکستان بلکہ اسلام کے پیغام کی بھی صحیح انداز میں ترجمانی نہیں ہوتی۔ اسی اثنا میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس بار عورت مارچ کے بجائے 8 مارچ کو’’ یوم ا لحجاب‘‘ منایا جائے۔اور آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین پر کسی بھی طبقے کو ’عورت مارچ‘ یا کسی بھی دوسرے عنوان سے اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی، پردہ و حجاب وغیرہ پر کیچڑ اچھالنے یا ان کا تمسخر و مذاق اڑانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے کیونکہ ایسا کرنا مسلمانانِ پاکستان کے لیے سخت اذیت، تکلیف اور تشویش کا باعث بنتا ہے۔خط میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ آٹھ مارچ کو ہی منائے جانے والے ’حیا ڈے‘ کو دنیا کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اور انڈیا میں مسلم خواتین سے لباس کی وجہ سے کیے جانے والے امتیازی سلوک کی طرف متوجہ کیا جائے اور بین الاقوامی برادری سے انڈین حکومت کے اس رویے کو ختم کرانے کا مطالبہ کیا جائے۔ان کے مطابق سال بھر ان کو مختلف کانفرنسز اور مشاورتی اجلاسوں میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے عورت مارچ کو باوقار بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی تجاویز دیں۔ انھوں نے پھر یہ تجاویز ایک خط کی صورت میں وزیر اعظم کو بھیج دیں مگر ان میں کہیں بھی عورت مارچ پر مطلق پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اقدار کا پاس رکھنے کی بات ہوئی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اْن کی ان تجاویز کو ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقے نے انا کا مسئلہ بنا کر اْن سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے، حالانکہ اْنہوں نے ماضی کے خطرات اور مستقبل میں دہرائے جانے والے عورت مارچ کے منتظمین کے متوقع ’’اقدامات‘‘ سے آگاہ کیا ہے کہ ہمیں اسے تہذیب کے دائرے میں رہ کر منانا چاہیے۔ کیونکہ 2020ء اور 2021ء کے عورت مارچ میںجس مختلف قسم کے بداخلاقی، بے حیائی اوربے شرمی پر مبنی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ان سے پتا چلتا ہے کہ ہم کس کھائی کی طرف لڑھکتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ ریلیاں لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور، اور کوئٹہ سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں نکالی گئی تھیں۔ ان ریلیوں میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں بات کرنے سے زیادہ مردوں کو دھمکیاں دی گئیں جیسے اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھو ، عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ اب مرد تو کیا کوئی معقول عورت بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ریلی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے نکلی تھی۔
پھر ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی تھی جس میں تین عورتوں نے ایک لڑکے کو کتے کی مانند بٹھایا ہوا تھا۔ایک پوسٹر بھی بڑا وائرل ہوا جس پر لکھا ہوا تھا ماں کا، نانی کا، دادی کا سب کا بدلہ لیں گے!اس عورت مارچ میں شریک ہونے والی عورتوں اور مردوں کے حوالے سے جب آپ جاننے کی کوشش کریں گے توپتاچل جائے گا کہ اس عورت مارچ میں شرکاء کا عورتوں کے حقیقی مسائل سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا تھا۔وہ لڑکیاں جو مرد سے آزادی کے نعرے لگا رہی تھیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ جس طرح مرضی کپڑے پہنیں مرد نظریں جھکا کر گزریں۔مارچ میںکئی عورتوں نے گانوں پر ڈانس کیا، اپنا دوپٹہ ایک علامت کے طور پر اچھالا اور اس حرکت پر داد بھی وصول کی۔
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت خاص طور پر اپنے وزیر کے خط کی طرف متوجہ ہو، اور سرکاری سطح پر اس کا اہتمام کرے، بلکہ لبرل اور اسلامی دونوں طبقات کی خواتین کو اس بات پر آمادہ کرے کہ ایسی خواتین کو ایجوکیٹ کیا جائے، جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں، جنہیں گھریلو و خاندانی تشدد کا سامنا ہے، جنہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے یا زیادتی کا نشانہ بنا دیا جا تا ہے۔ کیوں کہ نورالحق قادری صاحب جیسے لوگ اس ملک میں بدامنی نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں کہیں دھنگا فساد نہ ہو، اور دشمن کو موقع نہ مل سکے کہ وہ ہماری کمزوریوں کو دنیا کے سامنے رکھ کر ہمارے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی کوشش کرے۔
اور پھر ایسے وقت میں جب حکومت دنیا بھر کے بڑے بڑے بزنس تائیکون کو پاکستان میں مدعو کر رہی ہے جیسے مائیکرو سافٹ کے بانی کا پاکستان آنا ایک اچھی خبر ہے، حالانکہ یہ وہی شخصیت ہیں جو 2010 میں پاکستان میں آئی ٹی سافٹ وئیرز کا کاروبار کرنا چاہتے تھے مگر ہمارے پچھلوں نے اْن سے رشوت وصول کرنے کی کوشش کی تو یہ لوگ ہمسایہ ملک بھارت میں جابیٹھے۔ اور اسی بدولت بھارت آج ہم سے آئی ٹی انڈسٹری میں کم از کم 20سال آگے نکل چکا ہے۔ خیر یہ الگ بحث ہے مگر ان جیسی شخصیات کا آنا پاکستان کا مثبت چہرہ دکھاتا ہے۔ جس کی اشد ضرورت ہے۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اچھی خبریں یہ بھی ہیں کہ دیگر کئی وفد بھی پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جن میں گزشتہ دنوں ترک وزیر مذہبی امور ڈاکٹر علی ایرباش کی قیادت میں ایک وفد پاکستان میں موجود رہا جس کے لیے پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور نے ہی مختلف تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کیا ، ایک سیمینار میں تو ایرباش نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی طرز پر اسلامی دنیا میں بھی یونیورسٹی کے طلبا کے آپس میں ایکسچینج پروگرام ہونے چاہیے۔ ہماری تہذیب دوستی ،محبت کی تہذیب ہے اس تہذیب اور قرآن کی تعلیمات بغیر کسی تفرقہ بازی کے اگلی نسلوں تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔اسلام فوبیا کی اصطلاح غلط ہے کچھ لوگ غلط کر رہے جس کی وجہ سے اسلام فوبیا کی باتیں سامنے آتی ہیں ،اسلام ہمیشہ امن ،محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے۔بلکہ مذکورہ سیمینار کی اگر بات کرتی چلوں تو اس میں رومی اور اقبالؒ کی یاد کو تازہ کیا گیا، جبکہ اس موقع پر نورالحق قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج کا پاکستان اقبال صاحب دیکھ لیں تو وہ یقینا افسردہ ہوں گے۔
بہرکیف وفاقی وزیر نورالحق قادری صاحب جیسے لوگوں نے پاکستان کے چہرے کو مثبت انداز میں سب کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے، میرے خیال میں انہوں نے کبھی عورتوں کو قید کرنے یا اْن کی آزادی سلب کرنے کی بات نہیں کی بلکہ وہ اسلام کی روح سے خواتین کے حقوق کی ہمیشہ بات کرتے ہیں، اور خواتین کے حقوق کے لیے اگلی صفوں میں ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ اس لیے اْن پر تنقید کرنے والے کوئی اور جواز ڈھونڈ لیں تو پھر شاید بات سمجھ آجائے!