پچھلے دنوں اخبارات میں محکمہ زراعت حکومت پنجاب کی طرف سے اشتہار چھپا ہے ، جس میں پنجاب میں بہاریہ مکئی کی کاشت کیلئے کھادوں کی مقررہ مقدارمیں استعمال کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس اشتہار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے کھادیں وافر مقدار میں دستیاب ہی نہیں بلکہ اتنے ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں کہ کسانوں کیلئے ان کا استعمال کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہوسکتا ۔ ذرا غور کریں ایک ایکڑ زمین میں فصل کاشت کرنے اور اسکی بڑھوتری کے مختلف مراحل کے دوران کتنی مقدار میں مختلف کھادوں کے استعمال کی تلقین کی گئی ہے اور جن کھادوں کے استعمال کی سفارش کی جارہی ہے ۔ کیا وہ آسانی سے دستیاب بھی ہیں یا نہیں اور اگر دستیاب ہیں تو کن نرخوں پر دستیاب ہیں اور کیا عام کسان اتنی استطاعت اورسکت رکھتا ہے کہ وہ ان کھادوں کے خریدنے کے اخراجات برداشت کر سکے۔ اشتہار میں زیر کاشت زمین کی کمزور ، درمیانی اور زرخیز کے طور پر تخصیص کی گئی ہے ۔یہاں درمیانی قسم کی زمین کو لیا جاتا ہے جس میں اشتہار کے مطابق بوائی کے وقت سے لیکر فصل کی برداشت تک ڈی اے پی اڑھائی بوری ، ایس او پی ڈیڑھ بوری اور یوریا تین بوری استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
محکمہ زراعت اخبارات میں اشتہار دیکر اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھ سکتا ہے کہ اب کسان جانے اور انکا کام کہ وہ کھادیں کہاں سے لیتے ہیں ، انکو کھادیں ملتی بھی ہیں یا نہیں یا ملتی ہیں تو کن نرخوں پر ملتی ہیں ۔ عام مارکیٹ سے ملتی ہیں یا بلیک میں ملتی ہیں اور کیا کسانوں میں اتنی سکت اور استطاعت ہے کہ وہ مطلوبہ مقدار میں کھادیں خرید کر استعمال کرسکیں ۔ محکمہ زراعت کے کارپردازان یقینا کہہ سکتے ہیں کہ ان سوالوں کے جواب دینا یا ڈھونڈنا ہمار ا کام نہیں ، نہ ہی ہمیں اس سے کوئی غرض ہے کہ فصل کی کاشت کیلئے زمین کی تیاری پر کتنے اخراجات اٹھتے ہیں ہائبرڈ بیج کس نرخ پر ملتے ہیں اور فصل کی کاشت کے بعد اسکی دیکھ بھال، نگہداشت اور اس میں جڑی بوٹیوں اور کیڑوں مکوڑوں کے اتلاف کیلئے کیمیکلزکے سپرے پر کسان کو کتنے مصارف برداشت کرنا پڑتے ہیں ۔ ہمیں اس سے بھی کچھ لینا
دینا نہیں اور نہ ہی ہمیں اس سے کچھ واسطہ ہوسکتا ہے کہ فصل کی پرورش اور اس کی کٹائی تک اس کیلئے پانی کی سپلائی کیسے ہوگی اور اس پر کتنے اخراجات اٹھیں گے۔ نہ ہی فصل کے سنبھالنے اور اسکی برادشت کے اخراجات سے ہمیں کوئی غرض ہے۔ غرض یہ اور اسی طرح کے دوسرے سوالات ایسے ہیں جن کے جواب نظامت زراعت کے نچلے درجے کے افسران سے لیکر ان کے بڑے صاحبان جن میں انکے محکمہ کے سیکرٹری صاحبان بھی شامل ہوسکتے ہیں کے پاس نہیں ہیں۔ البتہ اس طرح کے اعداد وشمار(وہ بھی شاید فرضی)ضرور مل جائیں گے جن سے یہ دعوے کرنے میں آسانی ہوگی کہ صوبے میں اتنے رقبہ پر فلاں فصل کاشت کی گئی ہے اور اس سے اتنی پیداوار کا تخمینہ ہے اور صوبہ اس پیداوار کے بل بوتے پر خود کفیل ہو چکا ہے۔ غرضیکہ یہ دعوے اور پیداوار کے تخمینے اوپر محکمہ کے وزیر صاحب بلکہ انکے بھی باس جناب وزیر اعلیٰ تک پہنچتے ہیں تو وہ ان (فرضی) تخمینوں اور اعدادوشمارکو بنیاد بنا کر اپنے آپ کوو سیم اکرم پلس کے روپ میں ہی نہیں دیکھنے لگتے ہیں بلکہ اسطرح کے فرمان بھی جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھیں ہم نے پنجاب کو ترقی کی کس معراج پر پہنچا دیا ہے کہ کوئی دوسرا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔ پنجاب یقینا ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہماری طرح کے دقیانوسی خیالات کے مالک لوگ ہی نہیں بلکہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اور دیگر طبقات زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم ، باخبر ، معتبراور صائب الرائے افراد بھی اس ترقی کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں الٹا اسے ترقی معکوس کانام دیتے ہیں ۔خیر یہ ایک جملہ معترضہ سہی، اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔
کہا جاسکتا ہے کہ اپنی زمین پر فصل کی پیداوار کا مالک اگر کسان ہوتا ہے تو پھر فصل پر اٹھنے والے سارے اخراجات برداشت کرنا بھی اس کی ذمہ دار بنتی ہے۔ یقینایہ درست ہے اوراسے رد نہیں کیاجاسکتا ہے لیکن کچھ ذمہ داریاں ریاست کی اور حکومت کی بھی ہوتی ہیں ۔ ریاستیں ایسے نظام اپناتی ہیں جن سے عوام کی بہبود ، بھلائی اور بہتری مقصود ہوتی ہے ۔ حکومتیں اسطرح کے نظام کے اندر رہتے ہوئے ایسے قواعد وضوابط ترتیب دیتی ہیں اور ایسا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں جن سے عوام کیلئے جہاں آسانیاں مہیا ہوتی ہیں وہاں انہیں ضروریات کے مطابق تمام اشیا بھی بہ آسانی اور ارزاں نرخوں یا کم از کم مقررہ نرخوں پر دستیا ب ہوتی ہیں ۔ دیکھنا ہوگا کہ زراعت جسے ہم ملک کا بنیادی اور اہم پیشہ قرار دیتے ہیں اور اس سے وابستہ افراد بالخصوص کسان جنہیں ہم ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں ، کیا انہیں اپنی کھیتی باڑی یا فصلوں کی کاشت کیلئے تمام ضروری لوازمات بہ آسانی اور وافرمقدار میں دستیاب ہیں؟ اسکا جواب بغیر کسی ردوکدکے نہیں میں دیا جاسکتا ہے۔
راقم کو آبائی پیشہ ہونے کی بنا پر زراعت سے خصوصی لگائو ہے اور ہر سال اپنی تھوڑی سے زمین پر گندم کی فصل کاشت کرتا ہے جس کیلئے یوریا اور ڈے اے پی کھادوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بنا پر راقم کے ذہن میں کھادوں کی دستیابی او ر پچھلے مختلف برسوں میں انکی مقررہ قیمتو ں کے بارے میں کچھ معلومات موجود ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران یوریا 1400روپے بوری اور ڈی اے پی 2700روپے بوری تک دستیاب تھیں۔ جناب عمران خان کی تبدیلی والی سرکار برسراقتدار آئی تو کھادوں کی قیمتوں میں بھی تبدیلی ہونا شروع ہوگئی۔ اس سال گندم کی بوائی کے موقع پر یوریا اور ڈی اے پی بڑی مشکل سے دستیاب تھیں اورانکی قیمتیں بھی علی الترتیب 2500روپے اوردس ہزار تک پہنچ چکی تھیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد ان کھادوں کی اسطرح قلت پیدا کی گئی کہ انکا ملنا محال ہو گیا۔ اس کی باز گشت قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی سنائی دی گئی جب کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین اور کمیٹی کے بعض ممبر ان جن کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہے نے کھل کر یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے بڑی مشکل سے بلیک میں یوریا اورڈی اے پی کھادیں خریدی ہیں اور یوریا کی قیمت 2500روپے فی بوری اور ڈی اے پی کی قیمت دس ہزارو روپے تک ادا کی ہے۔ کھادوں کی قیمتوں اور انکی دستیابی کے اس جائزے کو سامنے رکھ کر کیا یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ زراعت کسی بھی فصل کی کاشت کیلئے اشتہاردیتے ہوئے کھادوں کی جس مقدار کی سفارش کرتا ہے کیا وہ مہنگائی کے اس دور میں کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے ؟یقینا ایسا ہی ہے۔