ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں ریڈیو اناؤنسر نے اپنے مہمان سے جو ایک کروڑ پتی شخص تھا ، پوچھا :’’ زندگی میں سب سے زیادہ خوشی آپ کو کس چیز میں محسوس ہوئی؟‘‘
وہ کروڑ پتی شخص بولا:
میں زندگی میں خوشیوں کے چار مراحل سے گزرا ہوں اور آخر میں مجھے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ میں آیا۔سب سے پہلا مرحلہ تھا مال اور اسباب جمع کرنے کا لیکن اس مرحلے میں مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو مجھے مطلوب تھی۔ پھر دوسرا مرحلہ آیا قیمتی سامان اور اشیاء جمع کرنے کا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس چیز کا اثر بھی وقتی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتی۔
پھر تیسرا مرحلہ آیا بڑے بڑے پروجیکٹ حاصل کرنے کا جیسے فٹ بال ٹیم خریدنا، کسی ٹورسٹ ریزارٹ وغیرہ کو خریدنا لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں تصور کرتا تھا۔چوتھی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ میں کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیئرز خریدنے میں حصہ لوں۔دوست کی بات پر میں نے فوراً وہیل چیئرز خرید کر دے دیں لیکن دوست کا اصرار تھا کہ میں اس کے ساتھ جا کراپنے ہاتھ سے وہ وہیل چیئرز ان بچوں کے حوالے کروں۔ میں تیار ہو گیا اور اس کے ساتھ گیا۔ وہاں میں نے ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے وہ کرسیاں دیں۔ میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی عجیب چمک دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ سب کرسیوں پر بیٹھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں اور جی بھر کے مزہ کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی پکنک سپاٹ پر آئے ہوئے ہیں لیکن مجھے حقیقی خوشی کا احساس تب ہوا جب میں وہاں سے
جانے لگا اور ان بچوں میں سے ایک نے میرے پیر پکڑ لیے۔ میں نے نرمی کے ساتھ اپنے پیر چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بچہ میرے چہرے کی طرف بغور دیکھتا ہوا میرے پیروں کو مضبوطی سے پکڑے رہا۔میں نے جھک کر اس بچے سے پوچھا کیا آپ کو کچھ اور چاہیے؟اس بچے نے جو جواب مجھے دیا اس نے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی سے روشناس کرایا بلکہ میری زندگی کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا۔اس بچے نے کہا میں آپ کے چہرے کے نقوش اپنے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں تاکہ جب جنت میں آپ سے ملوں تو آپ کو پہچان سکوں اور ایک بار اپنے رب کے سامنے بھی آپ کا شکریہ ادا کر سکوں’’آفرینش سے ہی انسانی سوچ کے زاویے اور فکری رویے پر اسراریت کے حامل رہے ہیں مگر اس فلسفے کا دوسرا پہلو بھی پوری ہمہ گیریت کے ساتھ موجود ہے۔بات کو سوچنا،پرکھنا اور تہہ سے نکالنا تحقیق کو جنم دیتا ہے اور اس تحقیق سے بات کو سچ ثابت کرنا مفروضہ کہلاتا ہے۔اسی مفروضے کو جب گنجھلک اور گمبھیر انسانی رویوں پر لاگو کر کے خاطر خواہ نتائج اخذ کیے جائیں تو اسے مثبت تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے۔ایسی ہی مثبت تبدیلیاں انسانی زندگیوں کو تبدیل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی انسان جب بھی مایوس ہوتا ہے تو جائے پناہ ڈھونڈتا ہے۔سکون کا متلاشی ہوتا ہے۔اس کی سانسیں کسی مترنم روح یا متلاطم بحر کو تلاش کرتی ہیں۔اس کی بے قراری اس کو اس قدر بے حال کر دیتی ہے کہ وہ بغیر سوچے کسی نادیدہ جزیرے کا رخ کرتا ہے۔یہی حال پاکستانی عوام کا ہوا۔انہوں نے تنگ آکر تحریک انصاف کو اپنا نجات دہندہ گردانا مگر حالات نے ثابت کر دیا کہ یہ پارٹی پاکستانی عوام کی حقیقی مسیحا نہیں تھی۔اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ایک تھی کہ صرف علی بابا اور تھا اور باقی چالیس چور وہی تھے۔ اس سیاسی ٹیم کا کپتان کرکٹ سے لے لیا گیا اور باقی کھلاڑی ’’وانجو‘‘ ہونجا پھیرو اور دیگر بدیسی کھیلوں سے لیے گئے تھے۔ اس طرح اب کی بار جو حشر غریب عوام اور ملک عزیز کا ہوا ہے۔اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔موجودہ سیاست کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے شہیر حیدر سیالوی نے ’’پاکستان نظریاتی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی سیاسی میدان میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا خیال ہے بلکہ ایجنڈا ہے کہ موروثی سیاست سے جان چھڑا کر عوام کو جینے کا ڈھنگ سکھایا جائے اور ملک کے ہر فرد کو اس کا تشخص باور کرایا جائے۔ کرپشن، لاقانونیت، اقربا پروری جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔سرمایہ درانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔لوٹی گئی ملکی دولت واپس خزانے میں جمع کی جائے۔ دولت جو چند خاندانوں کی دہلیز پر ناچ رہی ہے۔اسے غریبوں تک پہنچایا جائے۔وسائل عام آدمی کے دروازے پر پہنچائے جائیں۔نوجوانوں کو بے روز گاری سے بچایا جائے۔اگر شہیر حیدری کی یہ پارٹی واقعی اپنے مقصد اور نصب العین میں سچی ہے تو اس پارٹی کا مستقبل روشن ہے۔اگر شہیر حیدر کو عوام کی خدمات میں سکون حاصل ہے تو یقینا کامیابی ان کے خدمت چومے گی اور انہیں وہی سکون ملے گا جو اس مہمان کو ایک بچے کو ویل چیئر دے حاصل ہوا تھا۔بقول نبیل قیصر
جانے کب انقلاب آ جائے
رتجگوں کو بھی خواب آ جائے
جانتا ہوں کہ اب ہے دھوپ نبیل
کیا خبر کب سحاب آ جائے