بالآخر پھر وہی ہوا جو نوشتہ دیوار تھا۔اُس کا جانا ہی بنتا تھا۔وہ چلا گیا اور اپنے پیچھے واپسی کے بہت سے دروازے بھی بند کرگیا۔ اب اسکی اقتدار میں واپسی ناممکن نہ سہی،محال تو ضرور ہے۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے چلے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
اقتدار بھی کیا خوب شے ہے جب اسکا ہماکسے کے کندھے پر بیٹھتا ہے تو اقتدار کے طالب ابن الوقت افراد اور عناصر اسکے گرد شہد کی مکھیوں کی طرح جمع ہوجاتے ہیں اور شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔تاہم جیسے ہی اقتدار رخصت ہونے لگتا ہے تو یہ سب اُن چوہوں کی طرح بھاگ نکلتے ہیں جنہیں سیلاب کی آنے کی خبر قبل ازوقت ہوجاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا نظر آئے گا۔ رہی ان سے وفاداری کے دعوے کرنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی تو انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی سے نہ تو وفادار ہیں اور نہ ہی مخلص۔ ہاں اگر ہیں تو بس اقتدار کے ساتھ، اسکا ہما جس کے سر بیٹھے گا یہ بھی اسی کے ساتھ ہونگے۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے حق میں بیانات کا واحد مقصد یہی نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ انہیں راندہ درگاہ نہ کرے۔ایسے میں وہ عمران خان سے آئندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔پی ڈی ایم کے ساتھ بھی درپردہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا پرویز الٰہی کو کہیں پہنچاتا نظر نہیں آرہا، یعنی نہ ادھر کے اور نہ ہی اُدھر کے۔پنجاب میں سیاسی صورت حال فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ گورنر پنجاب بلیٖغ الرحمٰن صوبے میں گورنر راج لگانے کے آپشن سمیت دیگر آپشن پر پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ اگر آئینی بحران بڑھتا ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ تاہم لاہور کے سربراہ غلام محمود ڈوگر کی پرویز الٰہی اور عمران خان سے وفاداری کی واضح صورت حال میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر کو کیسے تالا لگایا جاسکے گا، ہنوز ایک پیچیدہ سوال ہے جس کا جواب یقینا وزیر داخلہ رانا ثناء الللہ کے پاس ہوگا جن کے احکامات اگر لاہور پولیس نہیں مانتی تو پھر ان احکامات پر عملدرآمد کروانے کے لئے رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے انکے ماتحت ہیں۔
رہے عمران خان تو بھلا وہ کب تک آپ پاکستانیوں کی اکثریت کے اعتماد کے ساتھ کھیل سکتے تھے۔ماضی گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی اسکا اقتدار زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا او ر اسے قصہ پارینہ بننے میں زیادہ وقت نہ لگا۔بھلا آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ آپ عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے اور وہ بلا چوں چراں آپکی ہر بات مانتی چلے جائے گی۔یقینا آپ کی یاداشتوں سے یہ جلد محو نہ ہو گا کہ آپ نے اقتدار میں آنے کے لئے بہت سے بلند و بانگ دعوے اور سینکڑوں وعدے کیے تھے۔آپ نے اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو اور ناجانے کیا کیا کہا تھا، لوگوں کی ایک بڑی تعداد آپ کی چکنی چپڑی باتوں میں آ بھی گئی اور آپ کو اپنا مسیحا سمجھنے لگی۔عمران خان رب ذو الجلال و الاکرام نے آپکو ایک نادر موقع فراہم کیا تھاکہ اقتدار میں آکر سوختہ جاں پاکستانی عوام کی خدمت کریں،ان وعدوں کی سختی کے ساتھ پاسداری کریں جن کی بنیاد پر عوام آپکو اقتدار میں لائے۔ تاہم اگر آپکے چار سالہ دور ِ اقتدار پر نظر دوڑائیں تو یہ کہنا یقینا درست ہوگا کہ عمران خان کا دور ِ حکومت بد ترین بد انتظامی،ناقابل برداشت مہنگائی، ملک و قوم پر قرضوں کے بے پناہ بوجھ، جھوٹ اور یوٹرنز سے عبارت رہا۔نہ لاکھوں گھروں کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی کروڑوں نوکریوں کی کوئی خبر۔ آپ ہی بتادیں کہ آپکے دور حکومت میں کتنے نئے ڈیمز،ہسپتال،اور یا پھر تعلیمی ادارے بنے۔چند سال پہلے ڈیڑھ سو روپے میں باآسانی ملنے والا گھی کا پیکٹ جب آج ایک غریب پاکستانی کو پانچ سو روپے میں ملے گااور ایسے میں پٹرول، ڈالر، گیس اور بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے تو عام آدمی چار و نا چارخود کشی کا نہیں سوچے گا تو کرنے کے لئے پھر اسکے پاس اور کیا باقی بچے گا۔ اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو اس میں رتی بھر بھی شبہ نہیں کے آپکی حکومت جانے پرمحض چند ہزار لوگ ہی سڑکوں پر نہ نکلتے بلکہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہوتی۔پی ٹی آئی کے حالیہ لانگ مارچ میں یہ صورت حال تو مزید کھل کر سامنے آئی۔
بہت سادہ سی بات ہے اقتدار تب تک وزیراعظم کے پاس رہتا ہے جب تک اسکے پاس اسمبلی میں اکثریت رہتی ہے جب یہ اکثریت نہیں رہتی تو پھر کوئی بھی وزیراعظم نہیں رہتا۔یہ عین جمہوری عمل اور آئین و قانون کے مطابق ہے۔آپ تو کہتے تھے آپ کو اقتدار کا کوئی لالچ نہیں تاہم جس طرح آپ اور آپکے رفقاء آخری وقت تک کرسی سے لپٹے رہے اس کی بھی مثال حال ہی میں کہیں ملتی ہے۔ آپ اور آپکے صاف دیدہ مصاحبین نے آئین و قانوں کے کسی بھی ضابطے کو ماننے سے انکار کر دیا اور پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں کو کسی قابل نہ جانا۔ آخری چند گھنٹوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر ملک کو تصادم اور بد امنی کے راستے پر دھکیلنے کے لئے آپ نے جو خطرناک اقدامات اُٹھانے کی سعی لا حاصل کی آنے والے دور میں مورخ ضرور اس پر رقم طراز ہوگا۔ اقتدار کی غلام گردشوں سے آشنا دوستوں کا کہنا ہے کہ آخری چند گھنٹوں میں عمران خان نے عسکری قیادت پر بھرپور زور دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کے لئے ملک میں ایمرجنسی لگا دے۔ جب عسکری قیادت نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ممکنہ ردعمل کے تناظر میں ملک میں سپہ سالار کی تبدیلی کی باتیں تیزی سے گردش کرنے لگیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ پھر وزیر اعظم کے مصاحبین نے انہیں مشورہ دیا کہ اسمبلی میں موجود شہباز شریف، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کے ان اہم رہنماوں کو گرفتار کرلیا جائے جن کے خلاف نیب اور ایف آئی اے میں مقدمات ہیں۔ اس فیصلے کے تناظر میں پریزن وینز اور رینجرز کو طلب کیا گیا تاہم رینجرز نے بھی ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وہ تو بھلا ہو اعلیٰ عدلیہ کا جس کے بروقت ایکشن سے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر دباؤ بنا جو اس وقت تک سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ہاوسں کے درمیان شٹل کاک بن چکے تھے، اعصاب کی جنگ ہار گئے اور استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے۔ نتیجتاً ملک کے افق پر موجود بحران چھٹا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدام اور اعلانات مثبت ہیں تاہم یہ ناکافی ہیں۔انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے پاس اپنی حکومت اور اپنی جماعت سمیت اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی عوام میں ساکھ بنانے کے لئے وقت بہت کم ہے۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ ماضی کی حکومت کی طرح انکی جانب سے کی گئی باتیں محض زبانی جمع خرچ بن کر نہ رہ جائیں۔ ان پر فوری عملدرآمد ہونا چاہیے تاکہ ان کی جماعت آئندہ الیکشن میں عوام کے پاس باوقار طریقے سے جا سکے۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی نرخ کم کرنا اشد ضروری ہیں۔