پہلے سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرتے وطن عزیز کو ایک نئے آئینی بحران کا سامنا ہے اور اس کے محرک بھی عمران خان ہی ہیں جنھوں نے گذشتہ ہفتہ اپنا آخری کارڈ کھیلتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو 23دسمبر جمعہ کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک ہفتہ کی تاخیر سے اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان بذات خود مشکوک ہے کہ اگر خان صاحب نے اسمبلیاں تحلیل کرنی ہی تھیں تو ہفتہ والے دن دونوں صوبوں کے رزرائے اعلیٰ ان کے دائیں بائیں بیٹھے تھے تو اسی وقت سب کے سامنے اسمبلیوں کی تحلیل کی سمری پر دونوں وزراء اعلیٰ دستخط کرتے اور گورنر کو بھجوا دیتے اور گورنر چاہتے یا نہ چاہتے حتیٰ کہ دونوں صوبوں کے گورنر ان سمریوں پر اگر دستخط بھی نہ کرتے تو دو دن بعد اسمبلیاں از خود تحلیل ہو جاتیں لیکن نیت چونکہ اسمبلیوں کے تحلیل کی نہیں تھی بلکہ ملک میں ایک اور سیاسی کٹا کھول کر ملک کو آئینی بحران میں دھکیل کر مزید عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ حالات جس ڈگر پر پہنچ گئے ہیں اس میں آئینی بحران کی شروعات ہو چکی ہیں۔ ویسے تو پاکستان کی سیاست ہر پل تبدیل ہو رہی اور کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے اس وقت تک آئینی بحران جو ملکی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اسے بنا کسی تردد کے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو آئین کے آرٹیکل130کی شق7کے تحت پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا ہے۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں آئین کے الفاظ کیا ہیں وہ دیکھ لیں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
”وزیر اعلیٰ گورنر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہے گا، لیکن گورنر اس شق کے تحت اپنے اختیارات استعمال نہیں کرے گا تاوقتیکہ اسے یہ اطمنان نہ ہو کہ وزیر اعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے، ایسی صورت میں وہ صوبائی اسمبلی کو طلب کرے گا اور وزیر اعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے گا۔“
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے گورنر کے حکم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس منگل
کو ملتوی کرکے جمعہ کو بلایا ہے اور کہا ہے کہ اس اجلاس میں حزب اختلاف کی طرف سے جمع کروائی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہو گی۔ اسپیکر کے موقف کے بر عکس پی ڈی ایم کی جانب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وزیر اعلی پنجاب نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے اور اسی تناظر میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ ہاؤس کو تالا لگا دیں گے۔
پنجاب میں حکومتی جماعت کو اگر یقین ہے کہ اس کے پاس اکثریت ہے تو گورنر کے حکم کو غیر آئینی سمجھتے ہوئے اپنے تحفظات کے اظہار کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلاتے اور اعتماد کا ووٹ لے لیتے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ پی ڈی ایم نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہ چال چلی ہے انھوں نے 19تاریخ کو رات نو بج کر 35منٹ پر گورنر کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی سمری بھجوائی اور اس کے کوئی بیس پچیس منٹ بعد عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی۔ اس انتہائی باریک نقطہ کا بھی خیال رکھا گیا کہ اگر گورنر کی سمری بعد میں ہوتی تو ایک آئینی سقم پیدا ہونے کا احتمال تھا اس لئے گورنر کی جانب سے پہلے سمری بھجوائی گئی۔ اب دونوں میں جو فرق ہے اس میں گورنر نے جو سمری بھجوائی ہے اس میں اعتماد کا ووٹ لینے کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ پر ہے یعنی اس میں حزب اختلاف کو کچھ نہیں کرنا جبکہ عدم اعتماد کی تحریک چونکہ حزب اختلاف جمع کرواتی ہے تو اس میں سارا بوجھ حزب اختلاف پر آ جاتا ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے گورنر کی سمری پر جس طرح آئینی تشریح کی جا رہی ہے اور جس کے تحت اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اجلاس بلانا بھی مناسب نہیں سمجھا اس کا ذکر آئین میں کہیں نہیں ہے۔ آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ صرف ایک صورت میں بجٹ سیشن کے دوران اسمبلی کا دوسرا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا اور وہ بھی اس وقت کہ جب ڈیمانڈ اور گرانٹ پرووٹنگ ہو رہی ہو اس کے علاوہ اگر اسمبلی کا اجلاس پہلے سے بھی چل رہا ہو تو دوسرا اجلاس بلانے پر کوئی آئینی قدغن نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک بات بڑی اہم ہے کہ اگر حکومتی جماعت بد نیتی کی بنا پر کہ اس ڈر سے کہ کہیں عدم اعتماد کی تحریک نہ آ جائے گذشتہ چار ماہ سے اسمبلی کا اجلاس ہی ملتوی نہ کرے تو پھر ایسی صورت میں حزب اختلاف کیا کرے۔ بحث سے بچنے کے لئے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے موقف درست مان بھی لیا جائے تو یہ اسی طرح سے آئینی اختیارات سے تجاوز ہے اور بعینہ وہی طرز عمل ہے جس کا مظاہرہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے کیا تھا۔کچھ لوگ گورنر کے حکم کو اس بنا پر بھی غیر آئینی قرار دے رہے ہیں کہ انھیں اچانک کیسے پتا چلا کہ وزیر اعلیٰ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں تو یہ اعتراض اس وقت وزن کھو دیتا ہے کہ جب خود چوہدری پرویز الٰہی نے کہہ دیا ہے کہ 99%ارکان اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
جس وقت یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی تو گورنر کے حکم پر اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی صورت میں وفاق کی جانب سے اگر وہی رد عمل آیا کہ جس کا کہا جا رہا ہے تو پھر ملک میں اور خاص طور پر پنجاب میں ایک زبردست آئینی بحران پیدا ہو جائے گااور اس میں ریاستی مشینری بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گی۔ آپ کو یاد دلائیں کہ 1993میں پنجاب میں جب اس وقت کی وفاق میں نواز حکومت نے میاں اظہر کو ایڈمنسٹریٹر لگایا تھا تو رینجرز سمیت تمام ریاستی مشینری نے ان کے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اسی طرح جب 1998میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے تحفظ کے لئے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو خط لکھا تھا تو انھوں نے اس پر عمل کرنے کی بجائے اسے وزارت دفاع کو بھیج دیا تھا۔ اس تناظر میں اب اگر وفاقی حکومت کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو گورنر کی سمری کے تحت وزارت اعلیٰ سے ہٹایا جاتا ہے تو ابتدائی مرحلہ میں ریاستی مشینری کا طرز عمل بھی بہت کچھ واضح کر دے گا لیکن اس کے بعد یہ معاملہ عدات میں جائے گا اور گورنر پنجاب کا وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دینا آئینی تھا یا غیر آئینی اس کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آئے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا میں اس سارے عمل سے مزید اضافہ ہو گا اور عمران خان نے بھی یہ طے کرلیا ہے کہ ملک اور ملکی معیشت کی بیشک ایسی تیسی ہو جائے لیکن اپنے محدود ذاتی مفاد کی خاطر اس ملک میں استحکام نہیں آنے دینا اور ہر چند دن بعد کوئی نہ کوئی نیا کٹا کھول کر عوام کو ہی نہیں بلکہ کاروباری برادری کو بھی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنا ہے تاکہ حکومت ملکی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو کسی پار نہ لگا سکے۔