کیا مجھے یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ عمران خان اس ملک میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والی انارکی پھیلانے کی کوشش میں کامیاب ہو چکا ہے؟ کیا موجود ہ آئینی بحران عوام کا مسئلہ ہے یا سیاستدانوں کا؟ بزدار کی جگہ اگرپرویز الٰہی آ گیا ہے تو کون سا من و سلویٰ اترنا شروع ہوگیا ہے اور اگر پرویز الٰہی چلا جائے گا تو پھرکونسی سے دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی؟ بنیادی بات تو عوامی حقوق کی فراہمی کی ہے اوروہ صرف شاہ خرچیوں پرکٹ لگا کرہی دی جا سکتی ہیں لیکن عمران خان ہو یا میاں محمد شہباز ٗ بزدار ہویا پرویزالٰہی مجھے انہیں پروٹوکول دینے کیلئے ایک اذیت ناک اور تذلیل آمیز وقت تک اشارے پرکھڑا رہنا ہوتا ہے۔ عوام آج بھی اِن قافلوں کی گرد سے زیاد ہ اہمیت نہیں رکھتے۔ دہشتگردی جس سے خدا خدا کرکے پیچھا چھوٹا تھا اور پاکستانی محفوظ ہوئے تھے آج پھر دبے پاوں پاکستان میں داخل ہو چکی ہے۔اب تو شمالی علاقوں پر کوئی ڈرون اٹیک بھی نہیں ہو رہے لیکن دہشتگردی ہے کہ لمحہ بہ لمحہ پنجاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عمران خان کے بارے میں کسی پاکستانی کی یہ دوسری رائے نہیں ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان میں طالبان کے ترجمان ہیں بلکہ اُن کے بیانیے کو ریاست پاکستان کے بیانیے پر فوقیت بھی دیتے رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے عمران خان کا پسندیدہ آئی ایس آئی چیف امریکی روانگی کے بعد افغانستان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ فتح کا یہ جشن اکٹھے منانے والوں کا بیانیہ آج پاکستان کی سیاست میں فوج مخالف ہے سو جس طرح سیاستدان آئین کی ایک شق کودوسری شق کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں یا قانون دان ایک قانون کو دوسرے قانون کے ساتھ ملا کر جج کے سامنے پیش کررہے ہوتے ہیں اگر ایک طالبانی واقعہ کو دوسرے سے ملا کر دیکھا اور پڑھا جائے تو پاکستان میں طالبان کے ہمدرد اورمعاون تمام لوگ عوام کے سامنے برہنہ ہوں گے۔پاکستانی عوام کسی اجنبی لشکر یا اُس لشکرکے حمایتیوں کے حامی ٗمدد گار یا معاون نہیں ہوسکتے۔ آئے روز ہمارے جوانوں کی شہادت کے واقعات نے خوف کی نئی لہر کو جنم دے دیا ہے جو ابھی تک کچھ ذہنوں میں ہیں لیکن اگر کسی بڑے شہر میں بنوں ایسی کارروائی ہوتی ہے تو پھر اس بار طالبان کو اُن کا ترجمان اندر سے بھی بھرپورحمایت دے گا سو ابھی وقت ہے کہ اِن کو روک لیا جائے ورنہ آنے والے کل کی تصویر بڑی خوفناک اور درد ناک ہو گی لیکن اس کیلئے ہمیں ماضی کے کچھ واقعات کو موجود ہ حالات کے ساتھ جوڑکردیکھنا ہوگا اوراِس کیلئے دسمبر سے بہتر مہینہ ہو نہیں سکتا۔
16دسمبر1971 ء کی وہ خون میں لتھڑی شام جب مشرقی پاکستان رہائشی اشکوں میں ڈوبے اپنوں سے جدائی کا غم اورہزاروں سال تک مفتوح رہنے والے ہندوستانی ”سورماؤں ”کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین شکست کے بعد جان عزیزوطن کے دو لخت ہو نے کا قیامت خیز منظر دیکھ رہے تھے۔94 ہزار فوجی بھارت کی قیدمیں تھے اور بچے کچھے پاکستان کے کچھ علاقوں پر بھی بھارتی قبضہ تھا۔دردکے لاکھوں افسانوں کے جنم لینے کے نتیجے میں معرض وجود آنے والی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست صرف292 مہینوں بعد آدھے سے کم رہ گئی۔ جنہوں نے اس لمحے کو باہوش دیکھا وہ اس زخم کی ٹیسیں آج بھی محسوس کرتے ہیں۔مایوسی میں ڈوبی ہوئی قوم،شکست خوردہ اداروں کونئے حوصلے دے کر ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنا کسی کرامت سے کم نہ تھا جوذوالفقارعلی بھٹو نے کر دکھایا۔شملہ معاہدہ ایک شکست خوردہ قوم کے نمائندے نے صدیوں پرانے دشمن سے برابری کی بنیادپرکیا۔اندراگاندھی جنگی قیدیوں پر مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔مقبوضہ علاقوں کے بارے میں بھی اس کا رویہ دوستانہ نہ تھا لیکن بھٹونے نا ممکن کو ممکن کردکھایا۔وہ ایسا ہی تھا۔لیکن کیا کبھی ہم نے اس قوت متحر کہ کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو مقتول کی اس جرات کے پس منظرمیں کار فرما تھی۔شملہ معاہدہ میں جانے سے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو مقتول نے نہ صرف اسمبلی میں موجود قائدین سے بھی بھارتی قیادت کے ساتھ گفتگوکا بلینک چیک وصول کرلیا جو اسمبلی سے باہرتھے۔ذوالفقار علی بھٹو مقتول کوان تمام سیاسی قائدین نے شملہ معاہدہ کے لیے ائر پورٹ سے روانہ کیا جو 1977 ء کے انتخابات کے بعد چلنے والی تحریک میں اس کی پھانسی کا مطالبہ کرتے رہے۔ شملہ معاہدہ اس لیے برابری کی بنیادی پر ہو گیاکہ بھارتی وزیر اعظم جانتی تھی کہ وہ ایک فرد سے نہیں،ایک قوم سے بات کررہی ہیں۔شاید شملہ معاہدہ اور آگرہ کانفرنس میں یہ ہی فرق تھا۔سب کچھ عزت آبرو کے ساتھ طے پا گیا۔زخم بھر گیا صرف داغ رہ گیا اور داغ تو رہ جانے کیلئے ہی ہوتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹوکو اسلام کیلئے خطرہ قرار دینے والوں کے شاید علم میں نہیں کہ اسلام کیلئے جتنی خدمات ذوالفقار علی بھٹونے دی ہیں اتنی پاکستان کی تاریخ میں کسی دوسرے حکمران کو نصیب نہیں ہوئی۔مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے سے لے کرپاکستان کے آئین کی تمام اسلامی دفعات اس کی اسلام سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایٹم بم سے لے کر اسلامی سربراہی کانفرنس تک وہ سب کچھ اسلام کے لیے ہی کرتارہا۔بھٹونے جو کچھ کیا شاید وہ اسلام نہیں تھااسی لیے بھٹوکے رد اسلام کیلئے تحریک کی ضرورت پیش آئی اور جنرل ضیاء الحق کو پاکستان کا مطلق العنان حکمران بنا دیا گیا۔سب نعرے،سب دعوے ایک مجلس شوریٰ میں ضم ہو گئے۔بھٹوکے بعد اسلام کی خدمت کرنے والوں نے جنرل ضیا الحق کے ساتھ مل کر جس کار خیر کی بنیاد رکھی اس کا صدقہ جاریہ ابھی تک سب کے نامہ ء اعمال میں لکھا جا رہا ہے۔لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ 1973ء کے آئین کے بعد ہم کبھی بھی ایک قوم نہیں بن سکے۔ہم نے اجتماعی کوشش کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔شایدہم کسی پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔صدر آصف علی زرداری سے احتلاف ہوسکتے ہیں لیکن رفیق تارڑ سے کیا اختلافات تھے؟غلام اسحاق خان ضیا باقیات تھا اُس سے اختلاف کیا جاسکتا تھا لیکن فاروق لغاری نے عدم اعتماد کیوں کیا؟ممنون حسین اورعارف علوی سے کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ بینظیر سیکورٹی رسک ہو سکتی تھیں لیکن نواز شریف بھی دو تہائی اکثریت لے کر اُسی کمان سے نکلے ہوئے تیر کے شکار ہوئے۔
قوم نے شاید ذوالفقا ر علی بھٹو کے بعد کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا۔مگر کیا اب اعتماد کے بغیر گزارہ ممکن ہے؟جمہوریت ہمارا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن کیا اس خواب کی تعبیرکے خاکے میں اپنی اناؤں کے رنگ بھرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ کیا جمہوریت کا قتل غیرجمہوری رویوں اور جمہوری لوگوں کے ہاتھوں بھی ہوتا رہے گا؟کیا ہم کبھی برداشت اور اپوزیشن کی سیاست کا طریقہ کارسیکھ سکیں گے؟گزرے 75 برسوں میں ہم نے اس اخلاقیات کو بھی کھودیا ہے جو کبھی ہمارا سماجی خاصہ تھی۔آج ہم چور کوفنکار اور ڈاکو کو تخلیق کارکہتے ہیں۔ہم بددیانت لوگوں کے عالی شان محلات دیکھ کر ماشااللہ بھی کہتے ہیں اور اسے اللہ کا دیا بھی سمجھتے ہیں۔تنگدست قوم کے خوشحال رہنما تو بذات خود ایک سوالیہ نشان ہوتے ہیں۔موجودہ صورت حال میں ہمیں سب سے پہلے سزا کسے دینی چاہیے؟بھوک،ننگ،ہر قدم پر مجروح ہوتی ہوئی عزت نفس اور اس پر خودکش بم دھماکے،ہم نے کس کس کو کھو دیا۔وہ جن کا کوئی جرم نہیں تھااوردہشتگردی کی نئی لہر کے محرکات کیا ہیں؟
آج پاکستان کیلئے بڑا خطرہ دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرکے موجودہ حالات تک پہنچانے والے کرداروں کا احتساب کیے بغیر کسی قسم کے انتخابات میں جانا ماضی کی غلطیوں کی طر ح ایک اورغلطی ہو گی جس کا خمیازہ اس بار انتہائی خوفناک صورت میں بھگتنا پڑہے گا۔ موجودہ حالات میں اول تو دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ لی جائے دوم ایک بے رحم احتساب کیا جائے جو روزاؤل سے ہماری ضرورت ہے۔ پاکستان میں 1970ء سے لے کر آج تک 11 عام انتخابات ہو چکے لیکن پاکستانی عوام کی قسمت نہیں بدلی سو یہ طے ہے کہ احتساب کے بغیر انتخاب سب دلچسپ کھلونے ہیں جن سے ان لوگو ں کو بہلایا جاسکتا ہے جو وعدہ ء فردا پر اب ٹلنے کیلئے تیار نہیں۔سب کچھ بچ سکتا ہے۔صرف اعتماد کے ایک بلینک چیک کی ضرورت ہے۔بالکل ویسے ہی جیسا ذوالفقار علی بھٹوکو دیا گیا تھا لیکن کیا پاکستان کے سیاستدان ایسا کوئی سیاسی بلینک چیک وزیر اعظم پاکستان کو دے سکتے ہیں۔اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر شاید ہمارے مقدر میں وہی خون میں لتھڑی شام کے سوا ء کچھ نہ بچے۔