انتہائی بے شرم انسان ہے اور زیادہ تر اپنی طرح کے لوگوں میں ہی مقبول ہے، اس بات کا صحیح اندازہ مجھے اْسی روز ہوگیا تھا جب اقتدار سنبھالنے کے صرف تین ماہ بعد مجھے بْلایا، چالیس منٹ کی طے شْدہ میٹنگ چار منٹ بھی نہ چل سکی، اْس روز مجھے مکمل یقین ہوگیا تھا یہ شخص پچاس برس بھی اقتدار میں رہا سوائے گندگی میں مزید اضافے کے کچھ نہیں کرے گا، اس کے باوجود ہم اس لئے ہلکا پْھلکا ساتھ اْس کا دیتے رہے لوگوں کی جو اْمید ہم نے خود بندہوائی مذید کچھ عرصہ بندھی رہے، جب اْس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا کالم اْس کی ناقص پالیسیوں پر میں نے لکھا معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے بڑے ہونے کا حق استعمال کرتے ہوئے مجھے یہ حکم دیا“کم از کم ایک سال تک اْس کی پرفارمنس ضرور دیکھو پھر جو جی میں آئے لکھنا، اْنہوں نے یہ بھی فرمایا”تمہارے اْس کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں، تم نے اْس کے لئے جدوجہد بھی بہت کی ہے اور اس کے نتیجے میں سرکار کی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بھی بنتے رہے ہو، میں جانتا ہوں نوائے وقت کو بھی اسی لئے تمہیں خیر باد کہنا پڑا تھا وہاں نظامی صاحب نے تم پر پابندی لگا دی تھی تم اْس کے حق میں نہیں لکھو گے۔۔ تو اتنا سب کچھ کرنے کے بعد اب اتنی جلدی تمہیں ”بے صبر“ ہونے کی ضرورت نہیں، ابھی انتظار کرو، ہو سکتا ہے اْسے عقل آجائے“۔۔ میں نے سہیل وڑائچ صاحب کا حکم من و عن تسلیم کر لیا، ایک سال تک میں نے سیاست اور حکومت پر کچھ نہیں لکھا، ایک سال میں صرف سماجی موضوعات پر لکھتا رہا، عمرہ نامہ کی کئی قسطیں لکھیں، پھر ایک سال بیت گیا اور مجھے سہیل وڑائچ صاحب سے پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟۔۔ جتنا چوبیس برسوں میں اْس کے یا اْس کی”تبدیلی“ کے حق میں، میں نے لکھا اْس کے اقتدار میں آنے کے بعد اْس کا بیس فی صد بھی اْس کی ناقص پالیسیوں کے خلاف لکھا ہوتا یہ بدبخت اللہ جانے کیا سلْوک مجھ سے کرتا۔۔ ابھی ہلکا سا آئینہ اْسے دیکھایا تھا پنجاب میں اپنے ”غلام“ بْزدار کو اْس نے حکم دیا اس”گْستاخ“ کو سبق سکھاؤ اور سزا کے طور پر سرکاری ملازمت (پروفیسری) سے برطرف کر دو، یہ نوٹس ابھی تیار ہو رہا تھا روزنامہ دْنیا لاہور کے ڈپٹی بیورو چیف، میرے عزیز چھوٹے بھائی حسن رضا کو کہیں سے خبر مل گئی، اْس نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کی ملازمت سے برطرفی کا نوٹس تیار ہو رہا ہے، پھر کچھ اورذرائع سے بھی مجھے اطلاع مل گئی، اگلے روز سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کی جانب سے نوٹس میرے ہاتھ میں تھمانے کے لئے مجھے طلب کیا گیا، میں نے اس طلبی نوٹس کے جواب میں سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کی جو طبیعت صاف کی وہ اگر انسان کی بچی ہوئی نہ صرف ہمیشہ یاد رکھے گی بلکہ سیاسی حکمرانوں کے ایسے ناجائز احکامات پر مْنہ وغیرہ چْک کے عمل درآمد سے بھی گریز کرے گی۔۔ پھر اْس وقت کے گورنر چودھری سرور بیچ میں پڑ گئے، میں نے اْن سے کہا ”میں کل لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں اْس ملازمت کو خیر باد کہہ دْوں گا جس کے بارے میں مجھے خدشہ ہے یہ آئندہ بھی میرے سچ کی راہ میں دیوار بنی رہے گی“۔۔ چودھری سرور میرے پْرانے مہربان ہیں اْنہوں نے مجھے مشورہ بلکہ حکم دیا”فی الحال یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں“ پھر اْنہوں نے مرکز میں بیٹھے”فرعون اعظم“ سے رابطہ کیا، اْن سے کہا اگر ہم اپنے تمام مخلص ساتھیوں سے یہی برتاؤ کرتے رہے آئندہ کوئی ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوگا“۔۔ جواب میں جو کچھ”فرعون اعظم“ نے کہا وہ چودھری سرور نے مجھے اس لئے نہیں بتایا کہیں میرا دل مزید بْرا نہ ہو جائے، مگر اْس وقت فرعون اعظم کے پاس جو شخص بیٹھا تھا اْس نے مجھے سب کچھ بتا دیا، میں نے اس ضمن میں خود بھی ایک میسج”فرعون اعظم“ کو اْس کے واٹس ایپ پر کیا، میں نے عرض کیا”میری چوبیس سالہ محبت کا یہ صلہ آپ مجھے دے رہے ہیں؟ جواب میں اْس نے کہا ”میں بْزدار سے بات کرتا ہوں“۔۔ مجھے یہ تاثر دیا گیا یہ انتقامی کارروائی بْزدار کی طرف سے ہے فرعون اعظم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔۔ بعد میں یہ راز مجھ پر کْھلا یہ کارروائی بزدار نے اصل میں اپنے ”آقا“ کے کہنے پر ہی کی تھی۔۔ اتنا بے شرم انسان ہے یہ، کوئی دید کوئی لحاظ کوئی محبت مروت چْھو کر اْسے نہیں گْزری، جس تھالی میں کھاتا ہے اْس میں سوراخ بلکہ پیشاب کر دیتا ہے، اب بار بار بْلاتا ہے میں نہیں جاتا، میرے بارے میں فرماتا ہے”یہ توفیق بٹ اتنا بے شرم انسان ہے میں اس کی ماں کے جنازے میں گیا اور یہ میرے خلاف لکھ رہا ہے، میں اس کے باپ کے مرنے پر تعزیت کے لئے گیا یہ میرے خلاف بک بک کر رہا ہے، میں اس کی بیٹی کی شادی پر گیا یہ میرے بارے میں ”گھٹیا زبان“ استعمال کر رہا ہے“۔۔ اْس کی اپنی گھٹیا زبان اب روز کسی نہ کسی آڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں سامنے آ رہی ہے، جو آڈیو ریکارڈنگز اب وائرل ہو رہی ہیں اڑھائی ماہ پہلے اْسی کے ایک”مہربان“ نے واٹس ایپ پر مجھے بھیجی تھیں، تب میں نے سوچا اْس کی مخالفت میں، اپنی تربیت سے ہٹ کر اخلاقی طور پر میں کہیں اتنا نہ گر جاؤں یہ آڈیو ریکارڈنگز کسی کو فارورڈ کر دْوں، میں نے ان آڈیو ریکارڈنگز کو اْسی وقت ڈیلیٹ کر دیا تھا۔۔ اچھی بھلی عزت آبرو اْس کی پردے میں تھی،پھر اْس میں تکبر آگیا، اللہ کسی انسان کو اْس کی اوقات سے بہت بڑھ کر نواز دے اور وہ اللہ کی اس نوازش پر عاجزی اختیار کرے اور ہمیشہ کرے تو نہ صرف یہ کہ اْس کی ترقی اور کامیابیوں کے مزید راستے کْھلتے ہیں اْس کی خرابیوں اور عیبوں پر پردے بھی پڑے رہتے ہیں، مگر جیسے ہی وہ شخص تکبر کرے اور اْس کی آخری حد تک چلا جائے، یہاں تک کہ یہ تاثر دینے لگے وہ نبیوں پیغمبروں اور ولیوں سے بڑھ کر عظمتوں کا مالک ہے پھر قدرت ایسے پردے اْس کے چاک کرتی ہے اْس کی سمجھ میں ہی نہیں آتا اْس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ ابھی تو”پارٹی“ شروع ہوئی ہے، اللہ نہ کرے جو گندگی اْس کی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چْکا ہوں وہ وائرل ہو جائے، اْس کے بعد پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے اْس کے سارے دعوؤں کی ساری اصلیت مزید کْھل کر سامنے آ جائے گی۔۔ کسی کے دْکھ سْکھ میں شریک ہونا اْس کے نزدیک کسی پر بہت بڑا احسان کرنا ہے، جیسا کہ آج کل مجھے وہ یہ طعنے دیتا ہے، یعنی جو ہمارے دینی و اخلاقی فرائض ہیں وہ مجھ پر بہت بڑے احسانات بنا کر میری غیر موجودگی میں وہ جتاتا ہے، جتنے مخلص لوگ اْس کے قریب تھے سب ایک ایک کر کے خود سے اْس نے پرے کر دئیے، پھر ایسی ذلالت اْس کے حصے میں مرحلہ وار آئی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، سب سے پہلا شکار عون چودھری ہوا تھا، وہ مخلص لوگوں کو اْس کے ساتھ جوڑ کے رکھتا تھا، وہ اْسے یہ تمیز سکھاتا تھا خان صاحب فلاں کے دْکھ میں آپ کو لازمی شریک ہونا چاہئے فلاں کی خوشی میں آپ کو لازمی جانا چاہئے۔۔ اب کوئی اْس کے آس پاس ایسا شخص دیکھائی نہیں دیتا جو کام کی باتیں اْسے بتا سکے، اب زیادہ تر اْسی قماش کے لوگ اْس کے ارد گرد رہتے ہیں جس قماش کا وہ خود ہے، میں جب اْس کی حرکتیں دیکھتا تھا مجھے شرم آتی تھی کس منہ سے وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے؟ جبکہ اْس کا عملی کردار اْس کے بالکل برعکس ہے، اب آہستہ آہستہ اْس کے اس عملی کردار کو دْنیا بھانپ رہی ہے، سوائے مولانا طارق جمیل کے۔۔ جانتے تو وہ بھی سب کچھ ضرور اْس کے بارے میں ہوں گے مگر کچھ مجبوریاں بعض اوقات دْنیا داری کے مقابلے میں دین کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔۔