اس سے پہلے میں اپنے کالم کا آغاز کروں میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتی ہوں کہ ایک دفعہ لڑکی والے اپنی لڑکی کا رشتہ دیکھنے گئے لڑکا پائلٹ تھا لڑکی والوں کو لڑکا پسند آگیا تو لڑکے کے باپ نے خوش ہو کر بیٹے کو کہا کہ بیٹا آپ اپنی ہونے والی ساس کو جہاز تو اُڑا کر دکھا دو تا کہ اُن کو بھی پتہ چلے کہ ہمارا بیٹا کتنا قابل ہے بیٹا جہاز اُڑانے گیا تو تمام فیملی کے لوگ جہاز کی اُڑان دیکھنے چھت پہ آگئے ۔لڑکا جہاز اُڑاتے ہوئے جہاز کے کرتب دکھانے لگا کبھی جہاز کو دائیں اور کبھی بائیں کبھی اُلٹا،سیدھا،قلابازیاں لگوائے جہاز کی اُڑان دکھانے کے بعد جہاز کھڑا کرکے واپس آگیا۔لڑکے کی ہونے والی ساس نے بڑے دھیمے اور پیار بھرے انداز میں کہا کہ بیٹا اسی طرح محنت جاری رکھو ایک نہ ایک دن جہاز سیدھا چلانا بھی سیکھ جائو گے ۔
یہ واقعہ موجودہ صورتحال سے یوں ملتا ہے اس بات کی طرح دو باتیں سمجھ آتی ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے وزراء جو حکومت میں بیٹھے ہیں اُن کو یہی نہیں معلوم کہ حکومت کس طرح چلائی جاتی ہے جس طرح اُس عورت کو معلوم نہیں تھا کہ جہاز کیا کیا کرتب دکھا سکتا ہے۔نمبر دو بدحال معاشی صورتحال کو بھی یہ لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ایک ناایک دن یہ خودبخود ٹھیک ہوجائے گی اب ان نالائق وزراء کو کون سمجھائے کہ انہوں نے آڑی ٹیڑھی ملکی معیشت کو بھی اُسی جہاز کی طرح لیا ہے۔جیسے پائلٹ اپنی مہارت سے ہوا میں اُلٹے جہاز کو سیدھا کر لیتے ہیں اسی طرح ملکی صورتحال کو درست سمت کی طرف لے جانے کے لیے تجربے اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح ملکی معاشی صورتحال کو کے پی کے بلدیاتی الیکشن سے جُدا نہیں کیا جا سکتا۔ بلدیاتی الیکشن میں حکومتی پارٹی خصوصا اُس صوبے میںحکومتی پارٹی کے دو ادوار مکمل ہونے کو ہیں اس کے علاوہ بڑے بڑے بُرج اُلٹ گئے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو کہ میں ایک کالم میں بیان نہیں کر سکوں گی مگر چند اہم پوائنٹ ایک ،ایک کرکے آپ کے سامنے رکھوں گی تاکہ حقیقت سے آگہی ہو سکے۔سب سے پہلے ہم وزیر اعظم عمران خان کا رویہ بھی اس ناکامی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
وزیراعظم نے ایک ایسا رویہ اپنا لیا ہے جس سے وہ عوام اور خصوصاً اپنی پارٹی ورکرز سے ایک فاصلے پہ ہیں اُن کے ارد گرد غیر منتخب لوگ ہی موجود ہیں جنہوں نے عوام میں جانا ہی نہیں وہ لوگ وزیر اعظم کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو سکرین پہ ایک فلم دکھائی جاتی ہے جس میں سب اچھا ہے نظر آرہا ہے۔مگر وزیر اعظم عمران خان کا رویہ ایسا ہے جس کی وجہ سے عام ورکرز کے درمیان ایسا فاصلہ قائم کر لیا ہے اُنہوں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ سکرین پہ جو دیکھ رہے ہیں اُس سکرین سے پیچھے کیا ہو رہا ہے ۔ایک اہم کام جو وزیر اعظم عمران خان نے کیا وہ یہ کہ اپنے دیرینہ اور نظریاتی کارکنان کو اُن پیراشوٹرز ایم پی ایز اور ایم این ایز کے حوالے کر دیا ہے جو ورکرز کی بات سُننے کو ہی تیار نہیں ہیں۔جسکی وجہ سے انکی جماعت کے اندر ایک خلا پیدا ہو چُکا ہے ۔جو دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اسی خلا کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی،کے پی کے میں بُری طرح ناکام ہوئی اور اب مولانا فضل الرحمن کی جماعت کی جیت اُن کے اس موقف کی تائید کرتی ہے کہ وہ جو کہہ رہے تھے وہ سچ ثابت ھوا۔
کے پی کے کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی ہار کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ عمران خان نے بلدیاتی ٹکٹوں کے تمام اختیارات ایم پی ایز،اور ایم این ایز کو دے دئیے اب ان میں سے اکثریت پیرا شوٹرز ہیں بہت کم ایسے ہیں جو پرانے ہیں۔اب ان لوگوں نے بہت د الچسپ کام کیا کہ اُنہوں نے بلدیاتی ٹکٹس کسی نے اپنے داماد کو دئیے کسی نے اپنے بھائی تو کسی نے اپنے سالے یا کسی دوست یا رشتے دار کو دئیے یہ تو وہی بات فٹ ہو رہی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں ساری اپنوں میں بٹ گئیں۔جب ساری ریوڑیاں اپنوں میں بٹ گئیں تو پارٹی کے کارکن منہ تکتے رہ گئے۔
بہت سے نظریاتی کارکن ایسے تھے جو آزاد حیثیت سے میدان میں آگئے ان میں سے کچھ ناکام ہوئے تو کچھ کامیاب ہو گئے۔جو کامیاب نہ ہو سکے وہی پی ٹی آئی کی ناکامی کا سبب بنے کیونکہ جہاں جے یو آئی کا امیدوار کامیاب ہوا ہے تو دوسرے نمبر پہ آزاد امیدوار ہے اور تیسرے نمبر پہ پی ٹی آئی آئی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس صوبے میں آپسی جھگڑے ہیں کیونکہ کے پی کے میں وزیراعلیٰ محمود خان اور عاطف خان کی نہیں بنتی محمود خان ایک پیرا شوٹر ہے اور عاطف خان ایک نظریاتی ورکر ہے اسی جھگڑے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ کے پی کے میں لوگ وزیراعلیٰ محمود خان کو ناپسند اور عاطف خان کو زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن محمود خان نے ہمیشہ عاطف خان کو ہمیشہ رد ہی کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے ان کے درمیان ایک دفعہ صلح بھی کرائی مگر معاملات ٹھیک نہ ہو سکے۔اسی طرح پی ٹی آئی میں جو بڑے بڑے نام ہیں جن میں اسد قیصر،پرویز خٹک،علی محمد خان اور شہر یار آفریدی جیسے لوگوں کو بھی حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اب ایک بہت دلچسپ بات ہے اب پرویز خٹک صاحب نے جو اپنا ووٹ کاسٹ کیا کیونکہ اُن کے قریبی رشتہ دار آمنے سامنے کھڑے تھے تو پرویز خٹک صاحب کو امتحان میں ڈال دیا ایک رشتے دار بلے کے نشان پہ الیکشن لڑ رہا تھا تو ایک تیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہا تھاتو پرویز خٹک صاحب نے ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں کو ووٹ کاسٹ کرکے اپنے و وٹ کو تو ضائع کر لیا مگر دونوں کو خوش کر دیا ۔
اب کچھ وزراء کہتے ہیں کہ مہنگائی کیوجہ سے پی ٹی آئی کو عوام نے ووٹ نہیں دیامیں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ 2018 کے الیکشن کے فوری بعدعمران خان اپنی جیتی ہوئی دو سیٹیں پشاور اور لاہور سے جو چھوڑی تھیں وہ دونوں سیٹیں پی ٹی آئی ہار گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 2018میں آر ٹی ایس نہ بیٹھتا تو پی ٹی آئی اتنی سیٹیں نہ لے جا سکتی آخر میں یہی کہوں گی کہ2018 کے الیکشن سے پہلے میڈیا نے جس غبارے میں ہوا بھری تھی اب اُس غبارے میں سے ہوا نکل چُکی ہے اب پنجاب میں بھی ان کا بُرا حال ہوگا۔کیونکہ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار پنجاب نہیں چلا رہا اور جو چلا رہا ہے اُس کو معلوم ہی نہیں کہ ورکرز کی کیا اہمیت ہے میں تو یہی کہوں گی کہ ان سب چیزوں کے ذمہ دار بھی خود وزیراعظم عمران خان ہی ہیں جو اپنے رویے کی وجہ سے اپنے پرانے نظریاتی ورکرز سے دور ہیں۔اور وہ دن دور نہیں جب ان کے رویے کی وجہ سے شکست ان کا مقدر ہو گی۔
کے پی کے میں شکست وجہ عمران خان کا رویہ
08:26 AM, 22 Dec, 2021