ہمیں امریکا سے امداد نہیں اعتماد چاہیے، اتحادی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں کرتے، پاک فوج

ہمیں امریکا سے امداد نہیں اعتماد چاہیے، اتحادی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں کرتے، پاک فوج

اسلام آباد:  ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہاہے کہ پاکستان امریکی امداد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا  اور  نہ ہی پاکستان برائے فروخت ہے جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی کسی اور ملک نے نہیں لڑی،  پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اچھے رہنے چاہیے، اتحادی ایک دوسرے کو نوٹسز نہیں دیتے اور الزام تراشیاں نہیں کرتے، بات چیت چاہے فارن ڈپلومیسی کے ذریعے ہو یا ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے چلتی رہنی چاہیے اور یہ چلے گی,  ہم افغانستان میں امریکا کی جنگ نہیں لڑ سکتے، ہم امریکا سے ہر طرح کا دفاعی تعاون کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن بلیم گیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ایک پروگرام میں اظہار خیال کر تے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی کسی اور ملک نے نہیں لڑی، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اچھے رہنے چاہیے، اتحادی ایک دوسرے کو نوٹسز نہیں دیتے اور الزام تراشیاں نہیں کرتے، بات چیت چاہے فارن ڈپلومیسی کے ذریعے ہو یا ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے چلتی رہنی چاہیے اور یہ چلے گی۔

امریکا کی جانب سے پاکستان پر دبا ؤ ڈالنے اور اس کی کامیابیوں کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کا بہت بڑا تعلق ماحول کے ساتھ ہے، پاکستان نے اپنی سرحدی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور انہیں شکست دی، افغانستان کی اپنی تاریخ، ثقافت اور جغرافیہ ہے جن کا جب غیر ملکی افواج سامنا کرتی ہیں تو انہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے اس لیے وہاں جنگ لڑنا اتنا آسان نہیں، امریکا نے اس حوالے سے پاکستان سے تعاون مانگا جو ہم نے کیا، لیکن افغان جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں امریکی، اس کی اتحادی افواج اور افغان فورسز نے لڑنا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے حصے کا بہت کام کرلیا اب افغانستان کی باری ہے، ہم نے افغانستان سے ملنے والے 2 ہزار 600 کلو میٹر کے علاقے میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو ختم کردیا اور کئی دہشت گرد افغان سرحدی علاقے میں حکومتی عملدرای نہ ہونے کی وجہ سے فرار جن کا خاتمہ افغانستان کی ذمہ داری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کردیا ہے اور چیک پوسٹیں قائم کر رہے ہیں، دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کے لیے افغانستان کو بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ محفوظ بارڈر کے لیے انٹیلی جنسی شیئرنگ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور افغانستان میں منشیات کے کاروبار کو روکنا بھی بہت ضروری ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم افغانستان میں امریکا کی جنگ نہیں لڑ سکتے، ہم امریکا سے ہر طرح کا دفاعی تعاون کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن بلیم گیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکی امداد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا اور نہ ہی پاکستان برائے فروخت ہے، جبکہ حکومت اور مسلح افواج کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں امریکا کی امداد نہیں بلکہ اعتماد اور بھروسہ چاہیے۔

پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق امریکا کے شکوک و شبہات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارے جوہری اثاثے بلکل محفوظ ہیں اور انہیں کوئی خطرہ نہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جو کام کیا، وہ کسی نے نہیں کیا۔ پاک افواج نے دہشت گردوں کیخلاف کارروائیاں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان سے تعاون کرتا رہا ہے لیکن ہم پر افغان جنگ مسلط کی گئی۔ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرنا ہوں گے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ہمارے نیوکلیئر اثاثے محفوظ ہیں جس کا اعتراف امریکا کر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں بھارت نے سب سے زیادہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ بھارت آزاد کشمیر میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا  رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد میں تیزی آئی ہے.

مصنف کے بارے میں