اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما وسابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ سیاسی کارکنان عدلیہ مخالف تحریک کا حصہ بننے کا سوچ بھی نہیں سکتے، میاں شہباز شریف کی نامزدگی کا فیصلہ مثبت ثابت ہو سکتا ہے اگر انہیں ان کی سوچ اور صلاحیت کے مطابق کام کرنے دیا جائے، سیاسی جماعتیں ٹوئیٹس اور ٹکرز کے ذریعے نہیں چلائی جاتیں، نہ ہی غیر سیاسی لوگوں کے فیصلے مسلط ہونے سے پارٹیوں کی ساکھ بہتر ہوتی ہے، اس شخص کو سیاست دان نہیں سمجھتا جس نے لوکل کونسل کا الیکشن بھی نہ لڑا ہو،ایسے غیر سیاسی لوگوں کو مسلم لیگ ن پراپنی رائے مسلط کرنے کی سراسر گنجائش نہیں ہے۔ قومی اداروں کو نشانہ بنانے والے بیانیہ کسی صورت عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا ۔
جمعہ کو میڈیا نمائندگان سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر تصادم کی پالیسی کے اس لیے خلاف ہیں کیونکہ ہمیں اپنی تمام تر توجہ سیاسی مخالفین پر رکھنی چاہیے اور غیر ضروری تنازعات میں الجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی کارکنان عدلیہ مخالف تحریک کا حصہ بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ صرف ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک جمہوری پارٹی بھی ہے۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا اطمینان ہی نہیں بلکہ خوشی بھی رہی کہ اس پارٹی میں اظہارِ رائے کی جتنی آزادی ہے وہ کسی اور پارٹی میں نہیں۔ شاید میری مسلم لیگ ن کے ساتھ تقریباً 33سالہ رفاقت کی بنیادبھی یہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس اظہارِرائے کی آزادی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔
چوہدری نثار علی خان نے مریم نواز کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ اس شخص کو سیاست دان نہیں سمجھتے جس نے لوکل کونسل کا الیکشن بھی نہ لڑا ہو۔ ایسے غیر سیاسی لوگوں کو رائے اور مشورہ دینے کا حق ضرور ہے لیکن مسلم لیگ ن پراپنی رائے مسلط کرنے کی سراسر گنجائش نہیں ہے ۔ وہ غیر سیاسی عناصر جو ایسا بیانیہ ترتیب دینا چاہتے ہیں جس میں نشانہ قومی ادارے ہوں کسی صورت بھی عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال ، آئندہ انتخابات کے تناظر میں انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ ن ایک انتہائی موثر اور متفقہ بیانیہ وضع کرے۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہونا چاہیے جس میں سیاست معیشت اور ملک کے قومی مسائل کے حل کے خاکے کے ساتھ ساتھ اپنی ساڑھے چار سالہ کارکردگی کا عکس بھی موجود ہو۔ ایسا بیانیہ ہی ہمیں آئندہ الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس قومی بیانیہ کی ضرورت بین الاقوامی حالات و واقعات اور کئی اطراف سے ملک پر بالواسطہ اور بلا واسطہ دبائو کی وجہ سے اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔