پنجاب میں ایک بہت اچھی،مثبت رویوں کی حامل،کمپیٹنٹ بیوروکریٹک ٹیم بنتی نظر آرہی ہے ،جہاں اس کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور ان کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کو جاتا ہے وہاں اس میں چیف سیکرٹری کامران علی افضل کا بھی بڑا اہم کردار ہے ،چیف سیکرٹری دھیمے انداز میں چلتے،نرم آواز میں بات کرتے کام ہوئے کام کرنے والی اپنی ایک بہترین ٹیم بنا رہے ہیں،جس میں وفاقی اور پنجاب سروس کے افسران شامل ہیں۔ان کی ایڈمنسٹریٹو کور ٹیم مکمل ہو چکی ہے ، جس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کیپٹن اسد اللہ خان ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہریار سلطان ،چیئر مین پی ایند ڈی عبداللہ خان سنبل ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو زاہد زمان ، اور سیکرٹری خزانہ افتخار امجد شامل ہیں۔آئندہ کچھ دنوں میں کچھ اور سیکرٹری بھی تبدیل کئے جا رہے ہیں ،پنجاب میں کمشنرز ،ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کے عہدوں پر بھی ردوبدل کے لئے ہوم ورک مکمل ہو چکا ہے ،بتایا گیا ہے کہ اسی ہفتہ میں ان میں سے بہت سے آرڈرز سامنے آ جائیں گے۔محرم الحرام ،بارشوں اور دوسرے عوامی مسائل کے حل میں راولپنڈی کے کمشنر نورالاامین مینگل کارکردگی کے لحاظ سے ٹاپ پر جا رہے ہیں ،جبکہ ایک دوسرے کمشنر کو نہ صرف تبدیل کیا جا رہا ہے بلکہ مائیکل جیکسن کے پیچھے بھیجا جا رہا ہے، جہاں وہ بھی کوئی اچھی پوسٹنگ لینے میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔ بارشی اور سیلابی پانیوں میں عوامی خدمت میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ پنجاب کے انتظامی افسران کی اکثریت نے بڑی جانفشانی اور محنت سے کام کیا ،پنجاب سول سیکرٹریٹ کے دفاتر ان حالات میں رات گئے تک کھلے نظر آ رہے ہیں ،چیف سیکرٹری ،ایڈیشنل چیف سیکرٹریز اور سیکرٹری آئی اینڈ سی اگر سیکرٹریٹ میں لیٹ آورز میں بیٹھے رہے تو سیکرٹری آبپاشی ، پی ڈی ایم اے ،ریلیف کمشنر اور دوسرے افسران فیلڈ میں کام کرتے رہے اسی وجہ سے وزیر اعلیٰ نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کواس محنت اور دن رات کام کرنے پر شاباش دی ہے،یہ شاباش اور وزیر اعلیٰ کا اعتماد بھی چیف سیکرٹری کامران علی افضل اور انکی ٹیم کی محنتوں کا اعتراف ہے،سیکرٹری آئی اینڈ سی کومزید اہم ذمہ داری مل رہی ہے۔ دوسری طرف گزشتہ دنوں مختلف تقرریوں ،تعیناتیوں کے حوالے سے بہت ساری ایسی باتیں کی گئیں جن کا وجود ہی نہیں تھا ،کچھ لوگ تو بہت دور کی کوڑی لائے اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی لڑائی تک کرا دی۔یہ درست ہے کہ پوسٹنگ ٹرانسفرکے لئے کچھ افسروں کے نامو ں پر اتحادیوں میں اختلاف رائے ہوا ہے مگر یہ اتنا بھی نہیں کہ اتحادی حکومت ہی کو خطرہ ہو۔ پی ٹی آئی کے گرفتار راہنما شہباز گل کے حوالے سے بھی پنجاب حکومت نے اپنی سوچ اور اقدامات کا رخ درست سمت میں رکھا مگر اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ چودھری محمد اصغر کی تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی وہ اس وقت جیل کے چند بہترین افسروں میں سے ایک ہیں ،محسوس یہ ہوا ہے کہ انہیں کسی دباو¿ پر تبدیل کیا گیا ہے ورنہ ان کی کارکردگی بہت شاندار ہے۔ نئی پنجاب حکومت مختصر سے عرصہ اقتدارمیں ابھی تک اچھا ڈیلیور کر رہی ہے ، پوسٹنگ ٹرانسفر پر باتیں ہو ہی جاتی ہیں ،تحریک انصاف کا پنجاب میں ساڑھے تین سالہ بزدار دور بھی پوسٹنگ ٹرانسفر کی کشمکش میں گزر گیا تھا حالانکہ اس وقت پی ٹی آئی کا اپنا وزیر اعلیٰ تھا ۔اس وقت بھی ، یہ افسر سابق حکمرانوں کا وفادار ہے،وہ کرپٹ ہے ،اس کی وفاداری مشکوک ہے،اس کا ماضی شفاف نہیں،یہ ہماری نہیں سنتا من مانی کرتا ہے،، کی باتیں سنی جاتی تھیں ۔ایسے معاملات میں جانے لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ سرکاری افسر حکومت،کسی سیاسی جماعت یا فرد کے نہیں ریاست کے ملازم ہوتے ہیں،ان کو ریاست کا مفاد،آئینی دفعات،محکمانہ قواعد کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ہوتے ہیں کسی بالا دست کی خواہش پر نہیں ،سرکاری افسر انسان بھی ہوتے ہیں ان کی نفسیات بھی انسانی ہوتی ہے،ان میں بھی پسند نا پسند،مفاد کا عنصر پایا جاتا ہے ، عزت نفس ان کو بھی عزیز تر ہوتی ہے،ایسا نہیں ہو سکتاکہ کسی پر اعتماد کیا جائے نہ اختیار دیا جائے اور کارکردگی کا تقاضا کیا جائے ۔ تھوڑی پرانی بات ہے جب میاں منظور احمد وٹو نے پیپلز پارٹی کے تعاون سے پنجاب میں وائیں حکومت کیخلاف عدم اعتماد تحریک کامیاب کر کے عنان اقتدار سنبھالی ، تب جونیجو لیگ اور پیپلز پارٹی میں بھی ایسے معاملات پر کش مکش ہوتی تھی ،اس دور میں بھی بیوروکریسی اور وزارتوں کے انتخاب میں بحث رہتی تھی ،افسروں پر سیاسی چھاپ لگائی گئی،یہ افسر ہمارا یہ تمہارا یہ اپوزیشن کا،اسی کشمکش میں میاں منظور وٹو کا دور اقتدار اپنے انجام کو پہنچا اور منظور وٹو کچھ کرنے کی خواہش کے باوجود کچھ نہ کر پائے،جس سے صوبے کا نقصان ہوا۔چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے تعاون سے اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں،وہ کام کرنے والے سیاستدان ہیں،ماضی میں بھی 2003 سے 2008 تک مرکز میں پرویز مشرف کی حکومت ہونے کے باوجود پنجاب میں کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے ان کے اس دور کے اقدامات سے آج بھی عام شہری مستفید ہو رہا ہے،یہ سب بیوروکریسی کی با اعتماد،تجربہ کار،کچھ کرنے کی لگن رکھنے والی بیوروکریسی کے تعاون سے ممکن ہوائ،آج مگر تحریک انصاف جو اکثریتی جماعت ہے کے تقاضے بالکل وہی ہیں جو وٹو دور میں پیپلز پارٹی کے تھے،وزرائ،ارکان اسمبلی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں،ان کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں ، افسروں کی تعیناتی میں ان کی رائے اور مشاورت ضروری ہے مگر اس کیلئے وزراءکی کمیٹیاں کبھی سود مند نہیں رہتیں اس مقصد کیلئے اعلیٰ سرکاری افسروں کو فیصلے کرنے دیں ،سیاستدان بیوروکریسی کے افسروں کے بارے میں اس قدر نہیں جانتے جتنا ضروری ہوتا ہے ،کس کی کیا قابلیت ہے،کیا تجربہ ہے،کس شعبے میں ماہر ہے،شہرت کیسی ہے،شفافیت کا کیا عالم ہے،قواعد کا کس قدر اہتمام کرتا ہے،یہ اعلیٰ ا فسروں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا،اس لئے چودھری پرویز الٰہی اپنی ٹیم کا چناو¿ ان لوگوں کی مشاورت سے کریں ۔تعیناتی،تبدیلی کا ایک ضابطہ ہے ،یوں سمجھ لیا جائے کہ بیوروکریسی ایک بہتا پانی ہے جسے ہر موسم میں ہر حکمران کیساتھ بہنا ہے،اس بہاو¿ میں جہاں رکاوٹ آئے گی خرابی ہو گی اور یوں انتظامیہ کھل کر ملک اور قوم کی خدمت نہیں کر سکتی ، بیوروکریسی کے افسر اپنی تعیناتی کے وقت حکومت سے نہیں بلکہ ریاست سے وفادار ی اور آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں تو کیوں ان کو اپنے حلف کے مطابق کام نہیں کرنے دیا جاتا؟ کوئی ایک حکومت کسی بھی ملک میں بتائیں جو سرکاری مشینری کے بغیر کامیاب ٹھہری ہو،جب تک وزراءحکمران طبقہ اور اکثریتی پارٹی سرکاری مشینری کو ذاتی کے بجائے ریاستی ملازم نہیں سمجھتے بہتری کی امید کرنا عبث ہو گا۔آج ملک و قوم جن بحرانوں سے دوچار ہیں اور جس قسم کے مسائل کا ان کو سامنا ہے،ان سے نجات کا ایک ہی حل ہے کہ اداروں کو ان کی حدودو اختیار میں خود مختاری دے دی جائے۔