ملک تیزی سے خوں ریز تصادم اور انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سیاستدانوں کے اندھے فیصلوں نے وفاق اور صوبوں خصوصاً پنجاب کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی محاذ پر چیزیں مختلف سمتوں میں چل پڑی۔ پاکستان کی 75 ویں ڈائمنڈ جوبلی سیاسی افراتفری اور لاہور کے ہاکی گراو¿نڈ میں پی ٹی آئی کے دھواں دار جلسہ کے سبب پھیکے رنگوں کے ساتھ گزر گئی۔ ملک بھر میں معمول سے زیادہ بارشوں کے سبب بڑے پیمانے پر تباہی، اموات غریب عوام کی بے بسی اور امداد کے منتظر ہزاروں افراد کی چیخ و پکار بھی سیاستدانوں کو اپنی جانب متوجہ نہ کر سکی۔ سیاست ذاتی انتقام اور مذاق بن گئی ملک اسی سبب عدم استحکام کا شکار ہوا معیشت تباہ ہو گئی۔ سیاست اپنی سیاست بچاو¿ اور اقتدار کی دوبارہ بحالی کے لیے آوازیں دے رہے ہیں۔ منت سماجت میں مصروف اس سے کام نہ چلا تو دھمکیوں پر اتر آئے۔ کپتان نے بھرے جلسے میں دہائی دی اب بھی وقت ہے نیوٹرلز اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں قوم اٹھ رہی ہے۔ آپ کچھ نہیں کر سکیں گے فیصلوں پر نظر ثانی کا مطلب مجھے پھر سے اقتدار دلا دیں۔ دھمکیاں تاحال کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔ جنہیں پکارا جا رہا ہے وہ فیئر پلے شفاف انتخابات کے سگنل دے رہے ہیں۔ لگتا ہے وہ دن ہوا ہوئے جب کہا گیا تھا کہ ”ستم تو یہ ہے کہ پتلی بٹھا کے مسند پر کہا گیا کہ یہی فیصلہ عوام کا ہے“۔ کپتان پارلیمنٹ میں اول آخر دو تہائی اکثریت کے خواہاں ہیں تاکہ انہیں کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ مگر گزشتہ دنوں کے حالات کی ستم ظریفی ہے کہ وہ صادق امین محب وطن اور اہل حکمرانوں کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر پائے اس لیے ان کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ اُڑی رنگت، بجھا چہرہ اور کھوکھلی دھمکیوں سے ان کا اضطراب نمایاں ہے۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے چار شکوے ہیں۔ دو تہائی اکثریت روکی گئی۔ میں نمائشی وزیر اعظم تھا فیصلے کہیں اور ہوتے تھے پی ڈی ایم کو اکٹھا کر کے اور اتحادیوں کو منہ پھیرنے کا کہہ کر میری حکومت ختم کر دی گئی اور چوتھا شکوہ یہ کہ فوری انتخابات نہیں ہونے دیے جا رہے۔ بعد از مرگ واویلا اقتدار کے دوران بہادری کا ثبوت کیوں نہ دیا گیا۔ اب شکوے شکایت فضول، پلوں کے نیچے سے بہت سے پانی بہہ گیا۔ فارن فنڈنگ کیس 8 سال تک معرض التوا میں ڈالا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے نے کئی طوفان کھڑے کر دیے بیرونی کمپنیوں اور مبینہ طور پر بھارتی اور اسرائیلی شہریوں سے فنڈنگ کی تصدیق ہو گئی۔ اکاو¿نٹس چھپانے اور غلط گوشوارے بھرنے کا جرم بھی تعاقب کرنے لگا۔ ادھر توشہ خانے سے تحائف نکلوا کر مہنگے داموں بیچنے اور رقم ظاہر نہ کرنے سے تا حیات نا اہلی کی تلوار لٹکنے لگی، بوکھلاہٹ لازمی تھی اس بوکھلاہٹ میں پے در پے کئی غلطیاں سرزد ہو گئیں۔ جلسوں میں تقریروں، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں سے کیا ہو گا۔ کسی دل جلے نے کہا تھا تقریر کر رہا ہے کوئی چیخ چیخ کر کچھ بھی نہ ہو بیان میں زور بیاں تو ہے۔ عمران خان سے حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے ان کے چیف آف سٹاف شہباز گل منہ پھٹ اور غیر مہذبانہ گفتگو کے لیے بدنام ٹی وی پر آ کر فوج کے خلاف افسروں اور جوانوں کو بغاوت پر اکسانے کا بیان دے بیٹھے جرم سرزد ہوا معمولی جرم نہیں تھا کہ نظر انداز کر دیا جاتا افواج پاکستان منظم ادارہ ملک کی سلامتی اور استحکام کا ضامن
سیاستدانوں نے اپنی حماقتوں سے اسے بحث مباحثہ کا موضوع بنا لیا، سب سے زیادہ اداروں پر تنقید بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہوئی۔ اندرون اور بیرون ملک سوشل میڈیا نے جو گند پھیلایا ہے اسے سمیٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے 529 اکاو¿نٹس پکڑے گئے ان میں 18 بھارتی اور 53 دیگر ممالک سے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف تھے۔ ابتدائی طور پر 75 افراد گرفتار کیے گئے دو چار نے معافی مانگی مگر جرم ناقابل معافی ٹھہرا۔ رت بدل گئی مزاج کے موسم خلاف ہو گئے عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی گرفتاری عمل میں آتے ہی خاموشی چھا گئی۔ پولیس نے باقاعدہ مقدمے کے اندراج کے بعد موصوف کو گرفتار کیا۔ شہباز گل اپنی فطرت کے مطابق اپوزیشن لیڈر کے چیف آف سٹاف ہونے کے زعم میں مخالفین پر رندا پھیرنے کی دھمکیاں دیتے رہے تھے۔ پولیس نے خاص رندا پھیر دیا یا پھر روایتی اداکاری بھرپور ڈرامہ عمران خان نے ابتدا میں صرف اسی بات پر اکتفا کیا کہ انہیں اغوا کیا گیا مگر دستاویزی ثبوت منظر عام پر آئے تو تشدد کا بیانیہ لے بیٹھے اب تک بیان کی مذمت نہ کی الفاظ کی بد احتیاطی پر بیان دیا شہباز گل اپنے لیڈر کی طرح ٹی وی پر فی البدیہہ نہیں بولے بلکہ بیان پڑھ کر سنایا گیا
بیان کس نے لکھا کس کی ہدایت پر لکھا گیا۔ یہی نکتہ تحقیقات کا مرکزی موضوع بنا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ شہباز گل کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شہباز گل کی وجہ سے عمران خان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے انہیں خوف ستا رہا ہے کہ اگر شہباز گل نے وعدہ معاف گواہ بن کر بیان دلوانے میں ان کا نام لے دیا تو کیا ہو گا۔ مرحوم و مغفور ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں مسعود محمود نے وعدہ معاف گواہ بن کر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل میں بھٹو مرحوم کو ملوث کر دیا تھا۔ نتیجہ کیا ہوا۔ قوم ایک بڑے لیڈر سے محروم ہو گئی ہمالیہ پچھلے 40 سال سے رو رہا ہے۔ اس سال تو بہت ہی رویا ہے عمران خان نے شہباز گل کے بیان کی مذمت کرنے اور لا تعلقی کے اظہار کے بجائے ان پر ہونے والے مبینہ تشدد کو سیاسی بیانیہ بنا لیا اور ایک بہت ہی گھناو¿نا الزام لگا کر ملک بھر میں ریلیاں نکالنے کا اعلان کر دیا کہا کہ شہباز گل پر جنسی تشدد کیا گیا۔ کوئی ثبوت، کوئی تصویر کوئی ویڈیو، ملزم کی ٹوئٹ کچھ نہیں الزام برائے الزام ڈی این اے کرا لیں سچ جھوٹ کا پتا چل جائے گا اپنے جھوٹ کو سہارا دینے کے لیے عوام خصوصاً نوجوان نسل کو ایندھن بنانا کون سی سیاست ہے۔ بات نہیں بنے گی۔ شہباز گل کی میڈیکل رپورٹس میں تشدد یا جنسی تشدد کا کوئی ذکر نہیں۔ ان کے خلاف قانون اپنا راستہ متعین کرے گا۔ عمران خان اپنے لیے حفظ و امان کی دعا کریں بلکہ ملک بھر میں اپنے ارکان اور حمایتی عوام سے یوم دعا منانے کی ہدایت کریں گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ شہباز گل نے پولیس کے روبرو دیا بیان عدالت میں بھی دہرا دیا تو سارے بڑے لیڈر 109 میں دھر لیے جائیں گے۔ کپتان کو ہر طرف سے مشکلات کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اظہار وجوہ کا نوٹس دے رکھا ہے۔ ایف آئی اے نے تحقیقات کے لیے طلب کر لیا کپتان نے پیش ہونے سے انکار کر دیا کہ ایف آئی اے کو بلانے کا اختیار نہیں بھول گئے کہ ان کے دور اقتدار میں نیب اور ایف آئی اے نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کتنے بڑے لیڈروں کو کئی کئی ماہ جیل کے 6x4 کمروں میں رکھا تھا۔ رانا ثناءاللہ کے کمرے میں چیونٹیاں چھوڑ دی جاتی تھیں۔ یہاں جاوید لطیف پر تشدد کرتے ہوئے کہا جاتا تھا زور زور سے چیخو تمہاری آواز عمران خان سن سکیں۔ مریم نواز کے واش روم میں کیمرے لگائے گئے۔ اقتدار کے نشہ میں فراموش کر گئے کہ ”چراغ جب بھی اندھیروں سے لڑنے لگتا ہے ہوا کا ذہنی توازن بگڑنے لگتا ہے“۔ مخالف ہوائیں چل پڑیں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ کچھ چھپانے کو نہیں ہے تو عمران خان رسیدیں کیوں نہیں دکھاتے۔ نواز شریف کو پاناما کے بجائے اقامہ پر نا اہل قرار دیا گیا۔ اب اس سے بڑی تلوار کپتان کے سر پر لٹک رہی ہے جسے وہ جلسے جلوسوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم لگتا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ کیسز ان کے لیے اتنے آسان ثابت نہیں ہوں گے سیاست کے ثقہ راویوں کا کہنا ہے کہ کپتان کی پے در پے غلطیوں نے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو مستحکم کر دیا، 10 ستمبر تک انتخابات کے اعلان کی دھمکیاں فضول ہیں انتخابات آئندہ سال اگست ہی میں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی لندن میں مقیم میاں نواز شریف پر بھی ان کی پارٹی کی طرف سے دباو¿ بڑھ رہا ہے کہ وہ واپس آ کر پارٹی کو سنبھالیں حرف آخر سیاستدانوں کو عقل و فہم سے کام لیتے ہوئے سوچنا ہو گا کہ ان کی حرکات و سکنات سے جمہوریت پیک اپ ہو گئی تو ملک کا کیا ہو گا۔