پرانا دور بہت اچھا تھا سادہ زندگی تھی اور سادہ ضروریات زندگی جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا ضروریات میں اضافہ ہوتا گیا، پہلے انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کا وقت بھی مل جاتا تھا۔ دیہات میں لوگ زیادہ تر درخت کے نیچے گزارتے تھے کسی قسم کی کوئی پریشانی ہوتی تھی ہی نہیں لسی اس وقت کا بہترین مشروب تھا اور بہت سے بیماریوں کا حل بھی۔
جوں جوں وقت بدلا شہر آباد ہوئے بجلی ایجاد ہوئی تو انسان اس کا عادی ہوتا چلا گیا اور اب بجلی کے بغیر بھی وقت گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے۔ جب یہ کام ہوا تو ہمارے سیاستدان بھی اس بات کا خوب فائدہ اٹھانے لگے، 2013 کے الیکشن ہوئے تو اس وقت کی موجودہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بہت دعوے کیے اور کہا کہ ہم نے ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنی ہے اور ہم بجلی بھی نئی ٹیکنالوجی سے پیدا کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہمیں اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ہم نے دیکھا کہ 2018 میں پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا اور بجلی کے حالات جوں کے توں ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا جانے والی حکومت جاتے ہوئے بجلی شاپر میں ڈال کر لے گئی تھی اپنے ساتھ؟
بجلی کے حالات انتہائی خراب دن رات لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ایسے لگا سب جھوٹے دعوے ہی تھا۔ دراصل ہمارے ملک میں جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ جان بوجھ کر بجلی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اس لیے آج بھی بجلی کے ستائے عوام سڑکوں پر آ رہے ہیں ہر کوئی اس وقت اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو ہی رو رہا ہے۔ عوام کہتے ہیں کہ بجلی ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی اور بل ہیں کہ کنٹرول ہی نہیں ہو پا رہے۔ جو وزیر توانائی بنتا ہے وہ قوم سے منہ چھپائے پھرتا ہے یا عوام کو ”قرار“ دینے میں مصروف رہتا ہے۔ جب عوام کا ری ایکشن دیکھتے ہیں، لوڈشیڈنگ پر تو بجلی کے عملے سے ناراضی کا اظہار کرتے ہیں ہمارے ملک کے وزیراعظم صاحب۔ مگر ناراضی ظاہر کرنا ہی کافی نہیں عوام کو ریلیف دینے کے عملی اقدامات اٹھانے کی آپ کے دعوے کہاں گئے۔ میرے ملک کے حکمرانوں کو ان چیزوں سے بالکل بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کو کیا پتا ایک غریب کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ آپ لوگ تو آرام سے بجلی کے بلوں میں اضافہ کر دیتے ہیں مگر جا کر دیکھیں ان لوگوں کا حال جو مہینہ بھر شدید تر گرمی میں محنت کرتے ہیں اور جب گھر جاتے ہیں رات کو بجلی نہیں ہوتی اور مہینے بعد جتنی محنت کرنے کے بعد آمدنی نہیں ہوتی اس سے آدھی بجلی کے بلوں میں ادائیگی میں چلی جاتی ہے اور باقی پرچون کی دکان سے سودا سلف لینے میں۔
غریب عوام کہتے ہیں کہ مہینے بھر محنت کرنے کے باوجود جو کمائی آتی ہیں انتظار اس کا اتنا ہوتا ہے مگر آتے ہی چند گھنٹوں میں کدھر چلی جاتی ہے پتا ہی نہیں چلتا۔ جب میں اپنے پروگرام کے سلسلے میں عوام میں گئی تو لوگوں کا کہنا تھا کہ بجلی سے بھی ہمیں مارا جا رہا ہے، پٹرول سے بھی۔ پھر ایک صاحب نے کہا کہ شہباز شریف صاحب پانچ روپے فی یونٹ بڑھائے ہیں آپ کیا جانیں سے غریب کا درد۔ غریب عوام کہتے ہیں کہ حکومت نے عوام کی زندگی قبر بنا دی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ہر چیز کی قیمت بڑھا دی مگر تنخواہ ہے کہ وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ کراچی کے حالات دیکھیں تو وہاں کے عوام کہتے ہیں کہ آپ لوگوں نے بل تو بڑھا دیئے ہیں مگر لوڈشیڈنگ سے جینا محال کر رکھا ہے۔ عوام کہتے ہیں ہم کس طرح سے جیئیں، کہاں جائیں، کس کے آگے اپنی فریاد رکھیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو دن میں پانی پریشان کر کے رکھتا ہے اور رات میں بجلی۔ کراچی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس والا شہر کراچی ہے اور اسی کو سب سے زیادہ خسارے میں رکھا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ ظلم بھی کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں سوچا جا سکتا ہے کہ ہماری افسر شاہی اپنے ملک کے غریب عوام کو مہنگی بجلی کے اثرات سے کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے اور یہ سارا کچھ ہماری افسر شاہی کا ہی کیا دھرا ہے۔ افسر شاہی جو کسی زمانے میں قیام پاکستان سے پہلے نوکر شاہی کہلاتی تھی اب وہی افسر شاہی کہلانے لگی ہے، عوام اس وقت بے حد پریشان ہیں اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو عوام جس حد تک غصے میں جا سکی ہے یہ سب کے سامنے ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ ہم کسی کو بھی ووٹ دینا اب پسند نہیں کرتے، ہمارے معاملات کا حل کوئی بھی حکمران نہیں نکال سکا، عوام اس وقت پریشانی میں مبتلا ہے اور حکومت کے آگے ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہے اور کہتے ہیں خدا ہم پر رحم کرے۔ انتخابات کا تماشا بند کریں اپنے اقتدار کی جنگ کو ختم کریں اور ملک کے مسائل پر دھیان دیں۔