پاکستان کے استحکام، ترقی اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جہاں ملک کی سرحدیں پاک فوج کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وطنِ عزیز کی حفاظت کر رہے ہیں۔ سیلاب زدہ یا کسی بھی قدرتی یا ناگہانی آفت کے وقت بھی افواجِ پاکستان کا جذبہ خدمت کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہیں قوم کے سپوت سیلاب کے وقت بھی ملک میں اپنے فرائض باخوبی انجام دے رہے ہیں۔ حالیہ بارشوںکے دوران جہاں پورے پاکستان میں بیش بہا جانی و مالی نقصان دیکھنے میں آیا ہے وہیں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محکمہ پولیس کے نوجوانوں کی دن رات محنت سے کہیں بھی لوٹ مار کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی ورنہ ایسے حالات میں جرائم پیشہ افراد ایمرجنسی کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کرتے ہیں۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے والے محکمہ پولیس کے سپوت خود بنیادی سہولیات سے محروم ہو کر بھی چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرنے کے باوجود عوام کے جان و مال اور امن و امان کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستانی عوام محکمہ پولیس کی کارکردگی سے خوش نہیں، اس کی بنیادی وجہ محکمہ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال اور علاقائی نام نہاد کرپٹ لوگوں سے مبینہ میل ملاپ اس محکمے کی کارکردگی کو گرہن لگانے کا باعث بنتا آ رہا ہے۔ ہر محکمے میں کچھ نا کچھ افسران ذاتی مفاد کو ترجیح دے کر ادارے کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن وہیں محکمہ کی عزت و آبرو اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے کئی افسران اور ملازمین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے
دریغ نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے محکمہ پولیس کے لیے ڈیوٹی کے کوئی اوقات کار مقرر نا ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں بنیادی سہولیات کے فقدان کا بھی سامنا ہے۔ دن بھر کی ڈیوٹی کے بعد آرام اور کھانے کے لیے کوئی بہتر انتظامات موجود نہیں بلکہ کچھ سٹیشنز پر تو انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی دکھائی دیتی ہے۔ اگر لکھنے لگیں تو ان مسائل کے لیے تو ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ معاشی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ ان حالات میں محکمہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے جیسے پنجاب پولیس کی تنخواہوں میں وفاق نے اضافے کا اعلان کیا ویسے ہی شہدا اور پولیس مقابلوں میں زخمی ہونے والوں کے لیے بہترین پالیسی لانے کی ضرورت ہے جبکہ سیاسی اثر و رسوخ کو تھانوں سے دور کیا جانا چاہیے۔ حالیہ بارشوں سے تباہی کے دوران جیسے متعلقہ ڈی سی صاحبان نے خوب مانیٹرنگ کی اور بارشوں کے باعث تباہی سے بچانے کے لیے بر وقت کارروائی کی اور قیمتی جانی اور مالی نقصانات سے بچایا وہیں دیکھا جائے تو ڈیرہ غازی خان کے آر پی او چودھری سلیم نے خود موقع پر پہنچ کر با اثر زمینداروں کو بند توڑنے سے روکا۔ تمام سیاسی اثر و رسوخ کو سائیڈ پر رکھ کر قوم کے جان و مال کے تحفظ کے لیے جس طرح اپنی فورس کے ساتھ غیر قانونی عمل کو روکا یہی وہ سپوت ہیں جو گمنام ہیرو ہیں جو اپنے وطن کی مٹی کی محبت میں اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر دن رات قوم کی عزت، دولت، جانوں اور امن و امان کی بہتری کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پولیس اور عوام کے بیچ خلا کو سیمینار، سکول و کالجز، یونیورسٹیز میں پروگرام ترتیب دے کر پولیس کی خدمات کی تشہیر کی جائے اور جو چند کالی بھیڑیں ہیں انہیں فیلڈ میں تعینات نہ کیا جائے۔ کوہِ سلیمان سے پانی کی آمد نے ڈی جی خان کو پنجاب سے منقطع کر دیا، زمینی رابطہ منقطع ہونے سے جہاں 30 سے زیادہ دیہات زیرِ آب آئے وہیں شہریوں کی زندگیوں اور مال و دولت کے گرد خطرات پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئے۔ نقصان اس قدر شدید ہے کہ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ فصلیں، جانور، گھر اور کئی قیمتی انسانی جانیں ان بارشوں میں بہہ گئی ہیں۔ مٹی میں دھنسی لاشیں ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو چیخ چیخ کر پکار رہی ہیں کہ یہ وقت جلسے، جلوسوں اور سیاسی سرگرمیوں کو ترک کر کے متاثرہ علاقوں کی امداد کرنے کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کے صاحبِ حیثیت افراد اس نا گہانی صورتحال میں بے بس، مجبور اور لا چار عوام کی مدد کریں۔ یہ صورتحال کسی صورت بھی 2005 کے زلزلے سے ہونے والی تباہ کاری سے کم نہ ہے۔ بلوچستان اور سندھ ڈوب چکا ہے جبکہ صرف ڈی جی خان ریجن کے سیلاب زدہ علاقوں میں پولیس کے 1100 سے زائد جوان امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور اب تک پولیس کی جانب سے سیلابی پانی میں پھنسے 4700 سے زائد افراد اور 1700 سے زائد مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی حفاظت کی ڈیوٹیاں بھی انجام دی جا رہی ہیں یہی وہ قوم کے سپوت ہیں جنہیں مائیں وطن کی حفاظت کے لیے خوشی خوشی بھیجتی ہیں۔ یہی وطن کے پیارے ہیں ملک دشمن عناصر، ڈکیت اور جرائم پیشہ افراد سے دن رات نبرد آزما رہتے ہیں۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ ان پولیس والوں کے خاندان اپنے بھائی بیٹوں کو وطنِ عزیز پر قربان کرتے ہیں لیکن لاشعور ی طور پر قوم کو ان کی قربانیاں نظر نہیں آتیں۔