لاہور: سیکرٹری بیت المال کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈز مختص نہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر پروٹیکشن سینٹرز قائم نہیں کئے جا سکے۔
تفصیل کے مطابق تحفظ خواتین قانون پر پانچ سال گزرنے کے باوجود عملدرآمد نہ کرنے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ کے روبرو سیکرٹری بیت المال نے رپورٹ پیش کر دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجٹ میں رقم مختص نہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پروٹیکشن سںنٹرز نہیں بنائے جا سکتے۔ خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے کیلئے کرائسسز سنٹرز کو پروٹیکشن سنٹر کے طور پر استعمال کرنے کی سمری بھجوائی تھی، لیکن پہلے سے موجود کرائسسز سنٹرز کی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون میں ترمیم کر کے بے نظیر بھٹو کرائسسز سنٹرز کو پروٹیکشن سنٹرز کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا، جبکہ قانون میں ترمیم کیلئے معاملہ کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس زیر غور ہے۔
سیکرٹری بیت المال کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد کیخلاف 2016ء کے قانون پر موثر عملدرآمد کیلئے 2017ء میں تحفظ خواتین اتھارٹی قائم کی گئی، یہ اتھارٹی 2017ء سے اب تک 125 متاثرہ خواتین کو انصاف فراہم کروا چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کیخلاف قانون پر مرحلہ وار عملدرآمد منصوبے کے تحت ملتان میں 390 ملین روپے سے پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا، جہاں تشدد سے متاثرہ 6 ہزار سے زائد خواتین کی داد رسی کی گئی جبکہ لاہور اور راولپنڈی میں خواتین پروٹیکشن سنٹرز کے قیام کیلئے سالانہ بجٹ میں 290 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی خان میں تحفظ خواتین سنٹر شروع کرنے کیلئے 135 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ قانون میں ترمیم کے بعد پنجاب کے 12 اضلاع میں قائم کرائسسز سنٹرز کو پروٹیکشن سنٹرز میں تبدیل کیا جائے گا۔