ہمارے پاس ایک ایسی ”گیدڑ سنگھی“ ہے جسے جب، جیسے اور جہاں جی چاہے، استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نام اِس گیدڑسنگھی کا ”سیاق وسباق“ ہے۔ جب کبھی ہم نے اپنے بیان سے یوٹرن لینا ہوتا ہے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا بیان سیاق وسباق سے سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب اِس معاملے میں یَدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ اُن کے اکثر بیانات پر اُن کے مشیران اور معاونینِ خصوصی یہی کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ ایسا کہنا اُن کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے اور اِسی کی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ شاید اِسی لیے وزیرِاعظم نے مشیران اور معاونین کی فوج ظفر موج اکٹھی کر رکھی ہے تاکہ ”سیاق وسباق“ کا بوجھ کسی ایک کے کندھوں پہ نہ پڑے۔ وزیرِاعظم کے بعض بیانات ایسے ہوتے ہیں جن پر سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ”ایویں خوامخواہ“ چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھا دیتا ہے۔ امریکی ٹی وی ایچ بی او کے میزبان جوناتھن سوان کو دیا گیا انٹرویو بھی اِنہی میں سے ایک ہے۔ مشیرانِ خوش الحان یہ کہتے پائے گئے کہ وزیرِاعظم کا یہ انٹرویو بھی سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیاہے۔
20 جون 2021ء کو جوناتھن سوان کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا ”جب عورتیں بہت کم کپڑے پہنیں گی تو اُس کا اثر مردوں پر پڑے گاسوائے اِس کے کہ وہ روبوٹ ہوں“۔ حسبِ سابق اُن کے اِس بیان پر بھی وضاحتی بیان سامنے آگیا۔ اُنہوں نے 28 جولائی 2021ء کو امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ”میں وضاحت کرتا چلوں، چاہے خاتون نے جیسا بھی لباس پہنا ہو یا وہ جتنی بھی ترغیب دینے والا ہو، ریپ کرنے والا شخص ہی اِس کا ذمہ دار ہوتا ہے، متاثرہ خاتون ذمہ دار نہیں ہوسکتی“۔ہمارے خیال میں وزیرِاعظم نے اپنے گزشتہ بیان سے سرِمو انحراف نہیں کیا سوائے اِس کے کہ ترغیب دینے والی خاتون کو بَری الذمہ قرار دے دیا گیا۔ ہمارے قانون میں جرم کرنے اور ترغیب دینے والا، دونوں ہی برابر کے مجرم ہوتے ہیں۔ اگر ایک عورت اپنے لباس اور حرکات وسکنات سے کسی مرد کو اپنی طرف راغب کرتی ہے تو آپ اُس کو بری الذمہ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟۔ ہمیں وزیرِاعظم صاحب کے اِس وضاحتی بیان سے ہرگز اتفاق نہیں کیونکہ ہمارا نکتہ نظر اِس سے یکسر مختلف ہے جس کا ذکر ہم اپنے27 جون 2021ء کے کالم میں کر چکے۔
ہم نے لکھا ”اِس انٹرویو سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چالاک عورتیں جان بوجھ کر مردوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور بیچارے معصوم مرد اُن
کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنسی جنونیوں کا لباس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔۔ وزیرِاعظم نے جس مختصر لباس کا ذکر کیا ہے وہ اہلِ مغرب کے ہاں تو مروج ہے جہاں عورت لباس کے نام پر دھجیاں سجائے پھرتی ہے، الحمدُ للہ پاکستان میں ابھی تک اِس کی نوبت نہیں آئی لیکن وزیرِاعظم صاحب کے بیان سے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں بھی اہلِ مغرب کی تقلید کی جا رہی ہو“۔ ہمارے اِس لکھے کی تصدیق یومِ آزادی پر ہوگئی جہاں 14 اگست 2021ء کو مینارِ پاکستان کے سائے تلے وحشت وبربریت کا ننگا ناچ نچایا گیا۔ٹِک ٹاکر عائشہ اکرم کی ذاتی زندگی خواہ جیسی بھی ہو، ہمیں اُس کے کردار سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن مینارِپاکستان پر تو وہ مکمل پاکستانی لباس میں ملبوس تھی جسے تارتار کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اُس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے والے وحشی بھیڑیے نہیں؟۔ ایک عائشہ اکرم ہی کیا 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب ایسے کریہہ مناظر سامنے آئے جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرمائے۔ وہ وحشی درندے جنہیں احساس تھا نہ ادراک اور نہ ہی گھر والوں نے یہ تربیت دی کہ بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کیا ہوتی ہے۔ اُنہیں کون بتائے کہ اُن کی بہنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو سکتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اُس معاشرتی بگاڑ کی بنا پر ہو رہا ہے جس کی طرف ہم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر طبع نازک پہ گراں نہ گزرے توہم وزیرِاعظم صاحب کے گوش گزار کرتے چلیں کہ مجمعے میں اپنے محرم کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتی ایک بُرقعہ پوش خاتون کو ایک بھیڑیے نے موٹر سائیکل سے اُتار کر اپنی باہوں میں جکڑ لیا اور اُسے دیکھ دیکھ کر دوسرے بھیڑیے قہقہے لگاتے رہے۔ اِسی طرح سڑک پر چلتے ہوئے موٹرسائیکل رکشا پر بیٹھی خواتین پر ایک بھیڑیے نے چھلانگ لگا کر ایسی کریہہ حرکت کی جو ناقابلِ بیاں۔سوال یہ ہے کہ وہ خواتین تو مکمل لباس میں ملبوس تھیں، اُنہوں نے تو کسی کو ترغیب نہیں دی پھر اُن کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا؟۔ جن چھوٹے بچوں اور بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے، اُن کا لباس سے کیا تعلق؟۔ جو ننگِ انسانیت درندے قبروں سے مُردہ عورتوں کو نکال کر اُن کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، اُن کی کیا سزا؟۔
کیا اِس سے یہ حقیقت عیاں نہیں ہوتی کہ لباس یا ترغیب نہیں بلکہ یہ معاشرتی بگاڑ ہے جو لازمہئ انسانیت کی ساری حدیں توڑ کر وحشت و جنونیت کو جنم دے رہاہے۔ ایسے جنونیوں کو نشانِ عبرت بنانا صرف اور صرف حکومت کا کام ہے لیکن ہمارے وزیرِاعظم کو تو ابھی اپوزیشن کو رگیدنے ہی سے فرصت نہیں۔ اُنہیں کون بتائے کہ 2020ء کے 12 ماہ کے دوران جنسی ہراسانی کے 2960 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 1510 لڑکیوں اور 1450 لڑکوں کے کیسز تھے۔ یہ تو وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوچکی، پتہ نہیں جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے اور کتنے ہوں گے جو مارے شرم کے سامنے نہیں آئے اور کتنے خاندان جو بدنامی کے خوف سے لبوں پہ خاموشی کی مہریں لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ جانے کتنے کیسز گاؤں اور شہروں میں ہوتے ہوں گے جو کسی سروے میں نہیں آتے کیونکہ ریپ ہونے والے بچے یا بچی کے خاندان والے میڈیا کے خوف سے چُپ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی عجیب کہ ایسے کیسز چسکے لے لے کر بیان کرتا ہے۔ اگرہمارے بَس میں ہو تو ہم الیکٹرانک میڈیا پر ایسی ر ویڈیوز آن ایئر کرنے پر مکمل پابندی لگا دیں۔
ہم نے زینت الرٹ بِل بھی پاس کر دیا، صدرِمملکت نے ”انسداد ریپ آرڈیننس 2020ء“ کی منظوری بھی دے دی لیکن نتیجہ ”ڈھاک کے تین پات“۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ کڑی سزاؤں سے اِن واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے لیکن ہمارا نظامِ عدل ہی کچھ ایسا ہے کہ اکثر مجرم صاف بچ جاتے ہیں اور جن کو سزائیں ملتی ہیں اُن کے بارے میں بھی عوام کو پتہ نہیں چلتا۔ دینِ مبیں میں تو سرِعام سزائیں دی جاتی تھیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں لیکن اب یہ سزائیں سات پردوں میں چھپا کر دی جاتی ہیں۔ اگر سرِعام سزاؤں کے حق میں بات کی جائے تو این جی اوز کے غول کے غول مخالفت پر اُتر آتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ضیاء الحق کے دَور میں معصوم پپّو کے قاتلوں کو کیمپ جیل لاہور کے سامنے سرِعام پھانسی پر لٹکایا گیا تو اُس کے بعدبچوں کے ساتھ بدفعلی کے کیسز نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ وزیرِاعظم ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے داعی ہیں۔ریاستِ مدینہ کی تشکیل نہ سہی وہ کم از کم اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد ہی کروا دیں۔
آخر میں سوال یہ کہ جس ملک میں ہم جی رہے ہیں کیا وہ بناناریپبلک ہے؟۔ کیا پاکستان کے اندر کوئی آئین نہیں، کوئی قانون نہیں؟۔ کیا عوام کی نسوں سے نچوڑے ہوئے لہو پہ پلنے والی پولیس کی کوئی ذمہ داری نہیں؟۔ کیا عدل وانصاف کے سارے دَر بند ہو چکے؟۔ کیا ہم ہر روز کسی نئے سانحے کے انتظار میں رہیں گے؟۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہی وہ ریاستِ مدینہ ہے جس کا خواب وزیرِاعظم نے دکھایا تھا؟۔ ہمارا دین تو عورت کی عزت، عصمت اور حُرمت پہ کٹ مرنے کا درس دیتا ہے، پھر یہ کیسا ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے جس میں اسلام ہے نہ جمہوریت۔ اگر کچھ ہے تو فقط کرسیئ اقتدار کی ہوس یا کھنکتے سِکوں کی جھنکارپر ٹپکتی رالیں۔