ٹی ایل پی کو فیض حمید نے نہیں اکسایا، جنرل باجوہ سے تلخ کلامی ہوگئی تھی سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ نے بیچ بچاؤ کرایا: رانا ثنا

ٹی ایل پی کو فیض حمید نے نہیں اکسایا، جنرل باجوہ سے تلخ کلامی ہوگئی تھی سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ نے بیچ بچاؤ کرایا: رانا ثنا

اسلام آباد: مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے اس وقت سیاسی استحکام میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی ہے۔جنرل قمر باجوہ سے تلخ کلامی ہوگئی تھی سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ نے بیچ بچاؤ کرایا۔ 

 نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی خود کو اور ملک کو تباہ کرسکتے ہیں، اب دیکھنا ہے پہلے کس کو کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں کی ہے اور دیاست دانوں کو یہ بات تسلیم کرنا چاہیے، اس وقت سیاسی استحکام میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی ہے۔

 
راناثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ووٹ مزاحمت کا ہے اور لوگ مزاحمت سے محبت کرتے ہیں، ہم سمجھتے تھے بانی پی ٹی آئی مزاحمت نہیں کرسکے گا لیکن، ماننا پڑے گا بانی پی ٹی آئی نے مزاحمت کی، 32 سال سے نوازشریف کے ساتھ ہوں، انہوں نے مزاحمت کی سیاست کی، مگر اس بار وہ نہیں چلی۔

سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پارٹی میٹنگ میں میری رائے تھی اتحادی حکومت نہیں بنانی چاہیے، یہ بات بھی درست نہیں کہ اس الیکشن سلیکشن ہوئی ہے، یہ سب سازشی تھیوریاں ہیں کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ چاہوں تو اپنی شکست پر 10 باتیں نکال سکتا ہوں لیکن میں نے اپنی شکست کو تسلیم کیا، جاوید لطیف الیکشن سے متعلق غلط کہتے ہیں زیادتی کرتے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہوا، اس الیکشن میں جتنا مجھے اپنے ہارنے کا یقین ہے اتنا ہی جاوید لطیف کی ہار کے صحیح ہونے کا ہے، جاوید لطیف کا گلہ ہے وہ ہار گئے لیکن رانا تنویر کیوں جیت گئے۔

صدر ن لیگ پنجاب نے کہا کہ رانا تنویر بھی ہار جاتے تو جاوید لطیف سکون میں ہوتے، میں انکا درد سمجھتا ہوں، ان کا دکھ رانا تنویر کے ڈی نوٹیفائی ہونے سے ختم ہونے والا ہے، جاوید لطیف کو وہ بات کرنی چاہیے جو دوسرا مان بھی لے۔

سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے انٹرویو میں کہا کہ ہیروئن کیس پر پارلیمنٹ میں تقریب تھی تو قمرباجوہ نے میرے متعلق بہت غلط بات کی تھی جس پر تلح کلامی ہوگئی۔ شہباز شریف نے باجوہ کو کہا دیکھیں راناثنا کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ بے گناہ ہیں، تو قمر باجوہ نے کہا وہ اس میں بے گناہ ہیں تو کوئی اور کام کیا ہوگا، اور میں نے یہ بات سن لی تھی۔

راناثنااللہ نے کہا کہ کچھ روز بعد پھر پارلیمنٹ میں بریفنگ تھی تو میری قمرباجوہ سے تلخی ہوگئی تھی میں نے باجوہ سے کہا آپ نے جو مقدمہ بنایا اللہ میرا انصاف کرے گا، جس پر قمرباجوہ نے مجھے جواب دیا نہیں میں نے نہیں بنایا تو میں نے کہا آپ نے ہی بنایا ہے، آپ کا ماتحت اگر آپ کی مرضی کے بغیر کوئی ایسا کرتا تو اس کا کورٹ مارشل ہوجاتا، جب ہمارے درمیان  تلخی بڑھ گئی تو اعظم نذیرتارڑ اور سعد رفیق بیچ میں آئے اور کہا چھوڑ دیں۔مجھ پر یہ کیس کروانے والا بانی پی ٹی آئی تھا لیکن کرنے والا قمر جاوید باجوہ ہی تھا۔

مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے قانون نافذ کرنیوالے کسی ادارے کو حق نہیں کہ وہ چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرے، پی ٹی آئی والے شور تو مچاتے ہیں لیکن تحریری شکایت نہیں کرتے تھے۔ شہباز گل اور اعظم سواتی کو میں نے خود کہا شکایت کرو ہم انکوائری کراتے ہیں، دونوں نے شکایت نہیں کی جب ہم پر ٹارچر ہوا تو ہم نے مقدمات درج کرائے تھے۔

 راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ ہم اس تاثر کو ختم کرنے میں ناکام رہے کہ نگراں حکومت ن لیگ کی نہیں جس کا سیاسی نقصان ہوا، محسن نقوی صرف ن لیگ کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات پر بھی وزیر بنے ہیں۔ ایسی ترمیم ہونی چاہیے کہ نگراں حکومتی شخصیت کسی بھی منتخب حکومت کا حصہ نہ ہو ورنہ اس طرح تو ہر نگراں حکومت اپنی سیٹ پکی کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنا تحریک لبیک کا اپنا فیصلہ تھا اور وہ اس پر کسی کی نہیں سنتے، یہ کہناغلط ہے تحریک لبیک کو دھرنے کے لیے کسی اور نے کہا تھا، جب دھرنا لاہور سے نکلا تو اس وقت بطور وزیر قانون پنجاب پہلے مذاکرات میں نے کئے تھے۔ ٹی ایل پی نے زاہد حامد کا استعفیٰ مانگا تھا توہم نے کہا راجہ ظفرالحق انکوائری کرلیں تو پھر اس پر عمل کرینگے، چار دن انکوائری رپورٹ نہ آئی پھر انہوں نے کہا ہم پرامن رہیں گے اب ہمیں جانے دیں۔

راناثنااللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت اور تمام ایجنسیوں نے فیصلہ کیا ان کو نہیں روکنا کیونکہ اموات کا خدشہ تھا جب اسلام آباد میں مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو حکومت نے آپریشن کیا جو ناکام ہوا۔ اس کے بعد فیض حمید اور قمر باجوہ نے کہا اسکو ختم کریں اور استعفیٰ دے دیں، اس لیے یہ کہنا غلط ہے ٹی ایل پی کو کسی نے اکسایا تھا۔

مصنف کے بارے میں