چونکہ نئی حکو مت مخلو ط ہے، اس لیے نئی کا بینہ کے چناؤ میں کچھ دیر لگنا ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ بہر حال اسی ہفتے کی انیس تاریخ کوچیئرمین سینٹ اور قائمقام صدر صادق سنجرانی نے نئی وفاقی کابینہ سے حلف لیا۔ وفاقی کابینہ میں تیس وزرا، چار وزرائے مملکت اور تین مشیر شامل ہیں۔ یوں ایک جمہوری عمل اور تسلسل کی تکمیل بحسن و خوبی سرانجام پائی ہے۔ نئی حکومت کا بیڑا اٹھانے والوں کے لیے بھی خارجہ پالیسی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی میدان میں کچھ نہ کچھ کر دکھانا ہی سب سے بڑا چیلنج نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے عمران حکومت نے عوام پر جو بوجھ ڈالا تھا، اس بوجھ کو ہلکا کرنا بڑے امتحان سے کم نہیں۔ تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اس وقت معاشی چیلنج ہی سرفہرست نظر آئے گا۔ اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ نئی حکومت تحریک انصاف کے پیدا کردہ چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مختصر اور طویل مدتی اقدامات اٹھائے گی۔ وزیراعظم نے قومی اقتصادی مشاورتی کونسل (این ای اے سی) تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں معروف اقتصادی ماہرین شامل ہوں گے تاکہ موجودہ معاشی مسائل سے نکلنے کی راہ نکالی جائے۔ پاکستان میں معیشت کے ماہرین نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی مہنگائی میں کمی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پہلے ہی موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح بلند رہنے کی پیشگوئی کر رکھی ہے۔ تمام مالیاتی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ کو حتمی شکل دی جانی چاہیے کیونکہ موجودہ اخراجات بڑھ کر 7.5 ٹریلین روپے ہو گئے ہیں۔ فنڈز کے چینی رول اوور کو آگے بڑھانا چاہیے اور حکومت کو دو طرفہ اور کثیر جہتی شرکت داروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے فنڈنگ کے لیے فعال طو پر مشغول ہونا چاہیے۔ سعودی عرب سے مؤخر تیل کی سہولت کو مکمل طور پر استعمال کیا جانا چاہیے اور پروجیکٹ کی مالی اعانت کو تیزی سے ٹریک کیا جانا چاہیے، بڑھتا ہوا مارک اپ ادائیگی اصلاحات کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ نئی حکومت کو انکم ٹیکس کے نظام کے لیے ریونیو اصلاحات اور مراعات کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ بجٹ 2023ء کو ملک میں ایک ترقی پسند اور سادہ ٹیکسیشن سسٹم کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کے لیے مالیاتی سختی سے بڑھ کر مہنگائی پر قابو پانا ایک اہم چیلنج ہے۔ اس سلسلے میں اشیائے خورونوش کی سپلائی سائیڈ مانیٹرنگ کرنا ضروری ہے۔ توانائی کے شعبے میں حکومت کو سستے ایندھن کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ روپے کی قدر میں مزید کمی نہ ہو اور مالیاتی توسیع کی شرح کو دو ڈیجٹ تک محدود رکھا جائے۔ گو پٹرولیم مصنوعات پر اور بجلی پر عام سبسڈی کو کم کرنے کی ضرورت ہو گی تاہم یقینا ٹارگٹڈ سبسڈی جاری رکھنی چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی حکومت یہ سبسڈی جاری رکھ پائے گی؟ رواں مالی سال اور اگلے برس پاکستان کو تخمینوں کے مطابق لگ بھگ 30 ارب ڈالر کی رقم واپس کرنا ہے۔ ملک پر ایک سو سولہ بلین ڈالر سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا جبکہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے تھے کہ شرح سود بڑھانے سے معیشت مزید مسائل کا شکار ہو جائے گی۔ حکومت کو معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے آسان اور جلد قرضوں تک رسائی سبسڈائز ریٹس پر عام انسان اور کاروباری طبقے کو دینا ہو گی، تاکہ
معیشت مستحکم اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ 32 ارب ڈالر سے زیادہ بیرونی فنانسنگ کے لیے بہتر شرائط پر ساتویں جائزے کی کامیابی تکمیل کی اشد ضرورت ہے۔ عوام بھی بالاتفاق مہنگائی میں کمی اور معیشت میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ بہتری کی توقع رکھتے ہیں جس میں وہ حق بجانب ہیں، اس کے علاوہ حکومت کو مستقبل کا روڈ میپ بھی دینا ہو گا۔ معیشت میں فوری بہتری لانا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن نئی حکومت کو کوئی نہ کوئی ایسا منصوبہ دینا ہو گا جس سے معیشت کے زوال کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ دوسرا اہم معاملہ خارجہ امور ہوں گے۔ بلاشبہ نئی حکومت کی کوشش یہ ہو گی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ جو حالیہ تناؤ آیا ہے اسے کم کیا جائے۔ ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ نئی حکومت کے لیے معیشت کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ برقرار ہیں، کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کے دور حکومت میں پاکستان کی معیشت ہر لحاظ سے مزید خراب ہوئی، مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک بار پھر آسمان کو چھو رہے ہیں۔ قلیل مدتی بنیادوں پر ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے، جس سے حکومت کو مقبول اقدامات ترک کرنا ہوں گے۔ لہٰذا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف اقدامات کو پلٹنا ہو گا۔ حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق متوازن بجٹ پیش کرنا ہو گا کیونکہ وہ مہنگائی مکاؤ مارچ کر کے اقتدار میں آئے تھے لیکن قلیل مدتی بنیادوں پر ادائیگی کے توازن کا بحران بھی سنگین ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت اور وزیراعظم کو چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے جن کا بُردباری سے مقابلہ اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت پر ان کی حکومت کی پالیسیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا مدت اقتدار اتنا طویل نہیں کہ وہ طویل المیعاد پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر عمل درآمد کر کے دکھا سکیں۔ انہیں ہر قیمت پر مقررہ مدت کے اندر کچھ کر کے دکھانا ہے۔ دیکھا جائے تو اس حوالے سے شہباز شریف کی تیاریاں پوری تھیں جس کا ثبوت ان کے پہلے ہی تقریر میں اعلان کردہ اعلانات سے ہوتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فوری اعلانات اور ان پر فوری عمل درآمد سے آغاز کر کے اچھی ابتدا کی ہے۔ نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بجٹ کا بھی ہو گا اور موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال فطری امر ہے کہ کیا حکومت نئے ٹیکس لگائے گی یا نہیں؟ اس نئی حکومت کو ایسا بجٹ بنانا ہو گا کہ معیشت کی گراوٹ کو روکا جا سکے اور ٹیکس کی مد میں آنے والے سرمائے کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بہت نیچے جا چکی اور اس میں اضافے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے سابق حکومت کے اشیائے خور و نوش پر بھاری ٹیکسوں میں کمی لانے کی بھی ضرورت ہو گی۔ حکومت کو آٹا سستا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر گھرانے کی ضرورت کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں ترجیحی بنیادوں پر کمی لانے کی سعی کرنا ہو گی۔ اس میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں کی ضرورت بھی ہو گی۔ خوردنی تیل اور گھی پر کئی قسم کے ٹیکس عائد ہیں، حکومت اگر ان میں سے بعض ٹیکس ختم کر دے تو ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔ مہنگائی میں کمی لانے کے لیے جنوری کے 343 ارب روپے کے منی بجٹ پر بھی نظر ثانی کرنا ہو گی۔
وزیراعظم نے جس عوامی ریلیف کا عندیہ دیا ہے اس کو عملی طور پر اور جامع صورت میں نافذ کرنا ہو گا اور موجودہ حکومت کو ایسا کچھ کر کے دکھانا ہو گا جو اسے سابق حکومت سے مختلف ثابت کرے۔ وزیراعظم اور ان کی نومنتخب کابینہ کے ارکان کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، یہی ان کا اصل امتحان بھی ہو گا اور مخالفین کو مسکت جواب بھی۔ کامیاب حکمت عملی اور اس پر پوری طرح سے عمل درآمد سے ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔