دوستو، رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا ایسا مہینہ ہے جس میں تیس دن کے لیے۔۔۔ شدید گرمیوں یا سردیوں میں ہم اپنے خالق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی محبوب ترین چیزوں کو مکمل طور پر ترک کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ ذاتی محاسبہ کا مہینہ ہے۔ یہ اپنی ذات کے حوالے سے نظرثانی اور اصلاح کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ اپنی خواہشات اور اپنے نفس پر قابو پانے کی تربیت ہے اس کے ذریعے مومنین میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اور نہ صرف ایک جسمانی عبادت ہے بلکہ نفسیاتی ریاضت بھی کیونکہ وہ اس سے اپنی خواہشات پر غلبہ پا لیتا ہے، وہ روزمرہ انسانی عادات کے شکنجوں سے آزاد ہو کر صرف اپنے پروردگار کی رضامندی کے لیے اپنی خواہشات سے دست کش ہو حائے۔
رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے کیونکہ اللہ نے اسکو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے۔۔ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو (البقرۃ: 183)۔۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے 1/ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نمبر دو نماز قائم کرنا، نمبر تین زکوٰۃ دینا، نمبر چار، رمضان کے روزے رکھنا۔۔ اور نمبر پانچ، بیت اللہ کا حج کرنا‘‘۔ (صحیح البخاری و مسلم)۔۔ توحید و رسالت کی شہادت کے بعد نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اسلام کے چار رکن ہیں اور پھر ان چار چیزوں میں سے بھی نماز اور روزہ کی زیادہ اہمیت ہے، اس لیے کہ یہ ہر مسلمان پر فرض ہیں جب کہ زکوٰۃ صاحب ِنصاب پر اور حج صاحب ِاستطاعت پر فرض ہے۔ اس کے علاوہ روزہ داروں کے لیے جنت کا ایک دروازہ ’’ریان‘‘ مخصوص ہے، جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے اُن کے علاوہ کوئی اور اس دروازہ سے داخل نہیں ہو گا، ان کے علاوہ روزے کے فضائل سے کتبِ احادیث بھری پڑی ہیں ان میں سے سب سے نمایاں ہیں۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ (صحیح الخاری)۔۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔ ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
مسلمانوں کے لیے ماہ رمضان میں زندگی کے کئی معمولات عام حالات کے مقابلے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ناشتہ، دوپہر کا کھانا، شام کی چائے اور پھر رات کا کھانا تبدیل ہو کر سحری اور افطاری تک محدود ہو جاتا ہے۔ مرزا غالب اپنے روزہ دار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔ دھوپ بہت تیز ہے۔ روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں۔ کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ یہاں کے لوگ عجب فہم رکھتے ہیں۔ میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تُو روزہ نہیں رکھتا۔ یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور روزہ بہلانا اور بات ہے۔۔۔ سورج ڈوبا یا نہیں، لگتا ہے آج تو مجھ کو لے کر ہی ڈوبے گا۔۔ سنا ہے رمضان میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے پر تم تو آزاد گھوم رہے ہو۔۔ چڑی روزہ ہے کھا لو کچھ، شکل دیکھو کیسی ہو گئی ہے تمہاری۔۔ ابھی بیٹری کتنی چارج ہے 70% 50% 20%۔۔ رمضان المبارک میں اکثر ایسے جملے لازمی سننے کو ملتے ہیں۔۔ ان سب کا مقصد صرف اور صرف ہنسی مذاق ہوتا ہے۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔ اور بہت سارے موضوع ہیں ان پر لطیفے بنا سکتے ہیں، روزہ ہی کیوں؟۔۔ ایک حدیث نبوی ہے کہ۔۔ جس نے رسول اللہﷺ پر نازل شدہ دین کی کسی چیز کا یا اس کی جزا و سزا کا مذاق اڑایا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (اگر چہ اس نے ہنسی مذاق کے طور پر یہ بات کہی ہو۔) دین اسلام کے کسی امر کا استہزاکرنا ’اس کا مذاق اڑانا‘ اجماع امت کے مطابق کفر ہے۔ اگرچہ کوئی غیر سنجیدگی سے بھی مذاق اڑائے۔ رمضان المبارک میں ہر کوئی پرہیزگاری اور متقی ہونے کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔۔ ایسے افراد سے آپ کا واسطہ بھی پڑ سکتا ہے۔۔ ایسے افراد افطار کے دوران آپ کو نہ صرف کپڑوں سے متعلق کچھ نہ کچھ ہدایات کریں گے، بلکہ وہ یہ بھی کہیں گے افطار کس طرح کرنی چاہئے، کھانے سے پہلے کیا پینا چاہئے اور پینے سے قبل کیا کھانا چاہئے۔ اگر آپ نے جلدی جلدی دعا مانگی، یا آپ کے ناخنوں پر نیل پالش لگا ہو گا اور اگر آپ نے اپنی گفتگو کی بات گزشتہ رات دیکھی گئی فلم کی بات سے شروع کی تو بھی وہ آپ کو ٹوکیں گے اور ہدایات کریں گے۔ اور ممکن ہے کہ وہ آپ کو یوٹیوب پر اپنے پسندید عالم کی ویڈیوکا لنک بھی سینڈ کر دیں۔
رمضان کا مہینہ ہے، روزانہ افطاری کے لیے پھل فروٹ بھی لینا ضروری ہوتا ہے۔۔ دسترخوان پر جب تک بھرپور افطاری نہ ہو تو مزہ ہی نہیں آتا، کراچی اور لاہور کی افطار میں ہم نے یہ فرق بخوبی دیکھا کہ لاہور میں افطار ہلکی پھلکی ہوتی ہے جس کے فوری بعد کھانا کھایا جاتا ہے، جب کہ کراچی میں بہت تگڑی قسم کی افطار ہوتی ہے، جس کے بعد کسی کھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔۔ تو ہم کہہ رہے تھے کہ جب آپ افطار کے لیے فروٹ لینے بازار جاتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہو گا تربوز والے آپ کو کس انداز سے تربوز دیتے ہیں۔۔ ہم نے نے ایک تربوز والے سے سوال کیا۔۔ یار تمہیں کیسے تربوزکو تھپکی دینے سے پتہ چل جاتا ہے کہ تربوز میٹھا اور لال نکلے گا؟؟ تربوز والا ہماری بات سن کر مسکرایا، پھر اس نے اپنی بڑھی ہوئی شیو کو کھجایا، پھر پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ پتہ نہیں صاحب جی، لیکن میرے باپ نے مجھے سمجھایا تھا کہ دو تربوز پر تھپکیاں مارو پھر تیسرے والا تربوز گاہک کو پکڑا دو، گاہگ خوش ہو جاتا ہے۔ واقعہ کی دُم: نوازشریف پہلا تربوز، عمران خان دوسرا تربوز۔ تربوز والے نے یہی کیا، عوام کو تیسرا تربوز یعنی ’’شہبازشریف ‘‘ پکڑا دیا،عوام بھی تیسرا تربوز لے کر خوش ہو گئے، وہ تو اس وقت پتہ چلا جب گھر آ کر تربوز کاٹا۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ چائے افطار کے بعد ’’ڈرپ‘‘ کا کام کرتی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔