لاہور : لاہور کی سیشن کورٹ نے کارپوریٹ فراڈ اور منی لانڈرنگ کیس میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور علی ترین کی عبوری ضمانت میں 3 مئی تک توسیع کردی ہے۔
نیو نیوز کے مطابق جہانگیر ترین اور علی ترین ایڈیشنل سیشن جج حامد حسین کی عدالت میں پیش ہوئے اور وکلا کے ذریعے ضمانت میں توسیع کی درخواست کی جسے عدالت نے منظور کرلیا ۔
قبل ازیں عدالت میں ایف آئی اے حکام نے رپورٹ پیش کی۔عدالت نے آئندہ سماعت پر ایف آئی اے کو جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے جہانگیر ترین اور انکے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ایف آئی اے کے مطابق جہانگیر ترین اور علی ترین کے خلاف کارپوریٹ فراڈ اور منی لانڈرنگ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا
مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین جے ڈی ڈبیلو شوگر ملز کے مالک ہیں ۔ملزم جہانگیر ترین اور علی ترین کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے کی غیر قانونی طور پر ٹرانزیکشن سامنے آئی ہے۔چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کے بھی ذمہ دار ہیں۔
بعدازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے جہانگیر ترین نے کہا کہ میرے ساتھ 40 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہیں۔ ہماری جلد وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوگی۔میں نے اپنے گروپ کے لیے افطاری کا اہتمام کیا تھا ایک دن پہلے اسلام آباد سے کچھ لوگوں کی طرف سے رابطہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے یقین دہانی کرائی کہ آپ کے گروپ کی چند دن میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوگی ۔ اگر ٹھنڈی ہوا اسلام آباد سے چلی تو مطمئن ہوئے ۔میرا خان صاحب کے ساتھ 10 سال کا عرصہ گزرا ہے پی ٹی آئی کا خاکہ میں نے بنایا۔
جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سے میرا رشتہ کمزور نہیں ہوا۔عمران خان کے ساتھ کھڑا تو ن لیگ نے میرے کاروبار کی چھان بین کرائی تھی۔ موجودہ دور میں سول کیس کو فوجداری میں تبدیل کیا گیا ایسا تو ن لیگ نے بھی نہیں کیا تھا۔
حکومت کی طرف سے بنائی کمیٹی سے متعلق سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ کمیٹی کی خبر ٹی وی پر سنی ہم سے کسی سے رابطہ نہیں کیا۔ چالیس ارکان میرے ساتھ ہیں ۔جب دوستوں کو بلایا جاتا ہے تو گروپ سے مشورہ کرکے جاتے ہیں۔
اپنے خلاف درج ایف آئی آر کے بارے میں جہانگیر ترین نے کہا کہ یہ بناوٹی ایف آئی آرز ہیں ان میں کوئی چیز ایف آئی اے کی نہیں ہے۔ ایس ای سی پی اور ایف بی آر کے کیسز ہیں۔ کوئی مدعی شیئر ہولڈرز میں نہیں سب مجھ سے خوش ہیں ۔یہ فوجداری مقدمہ نہیں ہے۔