نیویارک : سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مسلسل قریب آ رہے ہیں جبکہ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو سعودی عرب بھی انہیں حاصل کرے گا۔
انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے ’فوکس نیوز‘ کے چیف پولیٹیکل اینکر اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر بریٹ بائیر کو دیے گئے انٹرویو میں اسرائیل سے تعلقات کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر قریب آ رہے ہیں۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کے ممکنہ تاریخی معاہدے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اتنا بڑا ملک ہے اور مجھے یقین ہے کہ کسی بھی شخص کا بلواسطہ یا بلاواسطہ سعودی عرب سے کچھ لینا دینا ضرور ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت اور سعودی عرب کے لیے اس کا کیا مطلب ہے، سے متعلق سوال کیا گیا تو سعودی ولی عہد نے ایک بار پھر واضح الفاظ میں کہا کہ ’اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو سعودی عرب کو بھی سکیورٹی اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اسے حاصل کرنا پڑے گا۔
محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں تشویش ہے کہ اگر کوئی ملک جوہری ہتھیار حاصل کر رہا ہے تو یہ غلط ہے، یہ غلط قدم ہو گا۔ انھیں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ ان کا استعمال نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی ملک جوہری ہتھیار استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ باقی دنیا سے جنگ کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا ایک اور ہیروشیما کی متحمل نہیں ہو سکتی اگر دنیا لاکھوں لوگوں کو مرتا دیکھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ باقی دنیا کے ساتھ جنگ میں ہیں۔
لہذا جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشش کرنا جن کا آپ استعمال نہیں کر سکتے اور اگر اس کا استعمال کرتے ہیں تو پھر آپ کو باقی دنیا سے بڑی لڑائی لڑنا ہو گی۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے سے متعلق سوال کیا گیا تو شہزادہ محمد بن سلمان نے ان خبروں کی تردید کی کہ سعودی عرب نے مذاکرات کو معطل کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ یہ درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق معاملات میں قریب آ رہے ہیں، پہلی مرتبہ یہ ایک حقیقت لگ رہی ہے، ہم دیکھیں گے یہ معاملہ کہاں جاتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ چاہے اس ممکنہ معاہدے کے تحت جو بھی انچارج ہو ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس معاہدے کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا تاریخی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کا دارومدار فلسطینیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق معاہدوں پر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم ایسے کسی معاہدے تک پہنچنے میں کوئی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملیں اور خطے کو پرامن بنایا جائے، تو ہم کسی کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔‘
سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ وہ زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتے لیکن وہ ’فلسطینیوں کے لیے اچھی زندگی‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ فلسطین ہمارے لیے بہت اہم ہے، ہمیں اس مسئلے کو بھی سلجھانا ہے۔ اور اب تک ہماری مذاکرات کی حکمت عملی اچھی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم کسی ایسے نتیجہ پر پہنچیں جو فلسطینیوں کی زندگی کو آسان بنائے اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک اہم ملک بن کر سامنے آئے۔‘