نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے دوران اس وقت نئی تاریخ رقم کرنی شروع کر دی کہ جب انھوں نے اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حلف لیا ان کے اس ایک عمل نے بہت سے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہو گا اس لئے کہ محترم چیف جسٹس صاحب سے صدر مملکت حلف لے رہے تھے کہ جن کے دستخط سے قاضی صاحب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا گیا تھا اور اگر ریفرنس دائر کر کے فقط ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو وہ حلف لینے سے پہلے شاید اپنی اہلیہ کو اپنے پاس نہ بلاتے لیکن کچھ لوگوں نے اس ریفرنس کی آڑ میں ان کی اہلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ایسے سوالات کئے گئے کہ وہ خاتون رونے پر مجبور ہو گئیں لیکن پھر وقت کے جبر نے اس شخص کو کہ جس کے دستخطوں سے ریفرنس بھیجا گیا تھا اسے یہ کہنے پر مجبور کیا کہ انھوں نے یہ ریفرنس بھیج کر غلطی کی اور یہ کہ ریفرنس غلط تھا۔ حلف کے فوری بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی اگلے دن سماعت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قاضی صاحب صرف گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ثابت ہوں گے اس لئے کہ یہ کام کچھ دن ٹھہر کر بھی کیا جا سکتا تھا اور اس دوران اپنے اختیارات کو استعمال کر سکتے تھے۔ رہی ان کے موقف کی بات تو اس کے لئے ایک سو ایک جواز تراشے جا سکتے ہیں اگر سابقہ چیف جسٹس ایک کیس میں پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ ڈالنے والے کے ووٹ کو گنتی میں شمار کر سکتے ہیں اور دوسرے کیس میں ووٹ کو گنتی سے باہر کر سکتے ہیں تو موجودہ چیف جسٹس بھی کوئی جواز بنا کر اس مشکل راستے سے کنی کترا کر نکل سکتے تھے لیکن انھوں نے اس سے گریز کرتے ہوئے اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے ایک دن بھی ضائع کئے بغیر کیس کی سماعت نہ صرف یہ کہ شروع کر دی بلکہ سابق چیف صاحب کو ایک عرصہ سے جو فل کورٹ دستیاب نہیں تھا اس کی دستیابی بھی ممکن بنا کر دنیا کو بتا دیا کہ اگر نیت نیک ہو تو اصولوں پر چلنا کوئی مشکل امر نہیں ہے اور کیس کے فیصلے سے پہلے ہی انھوں نے دو سینیئر ججز کے ساتھ مشاورت سے بینچ بنانے کا کہہ کر اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے دیا ہے۔
حلف ہو گیا حلف کے 24 گھنٹے کے اندر سماعت شروع ہو گئی۔ اگلے روز صبح جب سپریم کورٹ پہنچے تو
انھوں نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر کے ایک اور اچھی مثال قائم کی اور پھر ایک اور کام ایسا ہوا کہ جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا بلکہ اگر کسی نے ایسی کوشش بھی کی تو اسے جرم قرار دیا گیا جی ہاں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ایک میں کورٹ کی کارروائی کو پوری دنیا میں دکھانے کے لئے کیمرے لگائے گئے اور یہ سب کچھ چیف جسٹس صاحب کی ہدایت پر کیا گیا اور ماضی میں تو عدالتیں میڈیا کو حکم دیتی تھیں کہ ہماری اجازت کے بغیر کیس کی کارروائی کی خبر نہیں دینی اور کہاں اب بغیر کسی روک ٹوک تمام کارروائی پوری قوم براہ راست دیکھ رہی تھی اور یہ چیف جسٹس صاحب کا اعتماد تھا کہ ان کے کورٹ روم سے ایسا کوئی کام ہو گا ہی نہیں کہ جسے عوام سے چھپا نے کی ضرورت پڑے۔ اس براہ راست کوریج سے جو جتنے پانی میں تھا اسے قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس طرح قاضی صاحب کسی وکیل سے سوالات کرتے تھے اور وہ کس طرح لا جواب ہوتا ہے اور قوم کو یقینا حیرت ہو رہی ہو گی کہ ایسے ایسے وکلاء کو کس طرح طرم خان بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس جھوٹ کو پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں پھیلایا جاتا اور عوام اس لئے یقین کرنے پر مجبور ہو جاتی کہ اتنے بڑے نام ہیں تو یقینا درست کہا جا رہا ہے۔ اس کیس کی کارروائی پورا دن چلی اور چیف جسٹس صاحب کی کوشش تھی کہ ون ڈے میچ کھیلا جائے لیکن اٹارنی جنرل نے بیرون ملک دورے پر جانا تھا لہٰذا کیس کی سماعت 3اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام فریقین اور تمام ججز جو کچھ بھی اس ایکٹ کے اندر ہے اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اختلاف اس بات پر ہے کہ کیا یہ کام پارلیمنٹ کر سکتی ہے اور یا حیرت کہ جس کے ہاتھ سے اختیارات جا رہے ہیں اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ وہ راضی خوشی اس پر تیار ہے لیکن کچھ صاحبان جنھیں جمہوریت اور پارلیمنٹ سے پتا نہیں کیوں کچھ مسائل ہیں انھیں مشکل یہ ہے کہ یہ کام پارلیمنٹ نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہے حالانکہ پارلیمنٹ آئین کے تحت ہر قانون بنا سکتی ہے اور جب یہ بات کہی جاتی ہے تو پھر ایک فریق مفروضوں کی طرف چل نکلتا ہے کہ کیا پارلیمنٹ اسلام کے منافی کوئی قانون بنا سکتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے مزید احمقانہ اعتراضات فقط بحث برائے بحث کو جنم دیتے ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت نہیں اس لئے کہ جب آئین کے شروع میں ہی اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ آئین پاکستان میں کوئی غیر اسلامی شق شامل ہی نہیں ہو سکتی تو اس کی موجودگی میں کوئی بھی پارلیمنٹ اس طرح کا کوئی کام کیسے کر سکتی ہے۔
دوران سماعت ایک دلچسپ مرحلہ اس وقت آیا کہ جب ایک محترم جج نے اٹارنی جنرل سے یہ سوال کر دیا کہ اگر اس پٹیشن کو خارج کر دیا جاتا ہے اور جس دن یہ قانون منظور ہوا ہے اسی دن سے اس کو لاگو کر دیا جائے تو اس دوران جو نئے بینچ بنے اور ان کے تحت جو فیصلے کئے گئے ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ در حقیقت یہ ایک انتہائی اہم، مشکل اور سنسی خیز سوال تھا کہ جس کے جواب یا یہ کہہ لیں کہ اس پر عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ کرے گی اس سے بہت کچھ اتھل پتھل ہو سکتا ہے لیکن امید ہے کہ ماضی کو نہیں چھیڑا جائے گا اور جو ہو گیا ہے اس پر مٹی پاؤ فارمولہ اپنایا جائے گا اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا کہ جو ملک میں انتشار کا سبب بنے۔