سچی بات تو یہ ہے کہ سچوں کی بات کرنا ان ہی کا حق ہے جو سچ کے کسی منصب پر فائز ہوں۔ ہم ایسے ناکس و ناقص اس قابل ہی نہیں کہ سچ کے قافلے کے سالار کی مدح میں کچھ بیان کر سکیں۔ اس لیے حق سچ کے راستے پر چلنے والوں کی خدمت میں سلام و سپاس کے بعد عرض گزاری یہ ہے کہ اس باب میں فقیر کا عاجزانہ اور مؤدبانہ معذرت نامہ قبول کیا جائے۔ جب راقم خود کو فقیر کہتا ہے کہ تو اس سے مراد وہ فقیر نہیں جس کا ذکر ”کشف المحجوب“ میں درج ہے۔ وہاں فقیر کے معنی و مفہوم یہ ہیں کہ فقیر وہ ہے جو اپنی ذات سے فانی اور ذاتِ حق کے ساتھ باقی ہو چکا ہو۔ طالبین و سالکین جب خود کو فقیر کہتے ہیں تو اس سے مقصود فقط فقرائے کاملین کے ساتھ ایک گونہ نسبت و محبت کا اعتراف و اظہار ہوتا ہے۔ مراد یہ کہ ہم ایسے طالبینِ صداقت کا خود کو فقیر کہنا دراصل اُس دَر کا فقیر ہونا ہے جہاں سے حق و صداقت کے قافلے روانہ ہوتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جب کبھی اِس سردارِ ملکِ معنی کی چوکھٹ پر حاضری ہوتی ہے تو دل اندر ہی اندر سے سہم کر رہ جاتا ہے، کہاں یہ سربر وزنِ شوریدہ سر اور کہاں یہ نور و خیر کا در!! لوگ کہتے ہیں، یہ بارگاہِ جمال ہے، اگر کوئی کشف المحجوب کے چند پیراگراف پڑھ کر حاضری دے تو اسے یہ دَر ایک پُر ہیبت بادشاہ کا قصرِ محتشم نظر آئے گا، یہاں داخل ہونے کی جرأت و جسارت یک لخت مفقود ہو کر رہ جاتی ہے۔ سردارِ ملکِ معانی کے محل میں باریاب ہونا اک کارِ آسان کب ہوا کرتا ہے!!!
خیال وارد ہوتا ہے کہ یہاں سچوں کے قافلے قیام کرتے ہیں اور اک سفرِ تازہ کے لیے یہاں سے عزم اور قوت کشید کرتے ہیں۔ اس خیال کے ساتھ ہی یہ خیال بھی دل میں سرگوشی کرتا ہے کہ تُو پہلے خود کو سچوں میں شامل کر لے، سچوں میں تیری انرولمنٹ ہو جائے، تب تُو اس قابل ٹھہرے گا کہ یہاں سیس نوائی کر سکے۔ کنڈرگارٹن میں کھیلنے والے بچے کا یونیورسٹی میں کیا کام؟
مقاِم تحیر و استعجاب ہے، حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ فقط تیس برس کی عمر میں اپنا ظاہری سفر مکمل کرنے کے بعد اپنے مرشد حضرت ابوالفضل ختلیؒ کی ہدایت پر یہاں شہرِ لاہور میں اپنی روحانی ڈیوٹی پر فائز ہو چکے تھے۔ کشف المحجوب میں سیدِ ہجویرؒ کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اسفار کا ذکر پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ بلادِ اسلامیہ کے درجن سے زاید شہروں میں پا بہ سفر رہے، سیکڑوں علماء و صوفیاء سے استفادہ کیا اور بالآخر اپنے مرشد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ مرشد تک پہنچنے کے بعد پھر کوئی اور سفر نہ کیا— مرشد نے انہیں ظاہری سفر سے نجات دلا دی اور ایک نہ ختم ہونے والے باطنی سفر پر روانہ کر دیا۔ سالکینِ طریقت کے لیے یہ مقامِ حیرت ہے کہ فقط تیس برس کی عمر میں ایک طالبِ حق اپنا سفر کیسے خوش اسلوبی سے مکمل کر لیتا ہے۔ یہ آپ کے مادر زاد ولی ہونے کی دلیل ہے۔
ہندوستان ایسے کفرستان میں شمع توحید روشن کرنا اسی پاک گھرانے کی استعداد ہو سکتی ہے جس کے ہاں نور اترا، فرقان نازل ہوا۔ کتابِ مبین کا وارث یہ حسنی شہزادہ، جس کا دادا علی المرتضیؓ ہے اور
نانا محمد مصطفیٰﷺ ہے، دین کی سربلندی کے لیے سلطنتِ غزنی کا جاہ و حشم اور خاندانی عز وشرف سب کو تج کرتا ہوا یہاں لاہور میں ہمیشہ کے لیے قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے یہ علاقہ ایک قصبے کی حیثیت رکھتا تھا۔ پرانے زمانے کے سفرناموں میں لکھا ہوتا، ”ملتان سے دلی جاتے ہوئے درمیان میں لہنور نام کا قصبہ ہے“ اس زمانے میں غزنی ایسے تہذیب یافتہ شہر سے نکل کر یہاں لاہور میں آ کر مقیم ہونا ایسے ہی تھا جیسے آج کسی کو لندن یا پیرس سے عدیس ابابا بھیج دیا جائے۔ یہاں سب سے پہلے جو قوم مشرف بہ اسلام ہوئی وہ غالباً گجر قوم تھی، مال مویشی پر گزارہ کرنے والے غریب لوگ۔ یہاں ان پڑھ، جاہل اور اجڈ لوگوں میں شائستگی، تہذیب اور اخلاقِ اسلام کا سبق دینا ایسا ہی مشکل تھا جیسے عرب کے بدووں میں تبلیغِ دین کرنا۔ یہ ہمتِ مردانہ اور کارِ پیغمبرانہ اسی ہستی کا کام ہو سکتا ہے جسے نائبِ خیرالانامؐ کا نام دیا گیا ہے۔ معروف صوفی بزرگ حضرت افضل فقیرؒ کہتے ہیں:
سیّدِ ہجویرؒ خورشیدِ یقین
ذاتِ اُو حصن حصینِ شرع و دین
السّلام اے درد منداں را امام
گنج بخشی کارِ تُست اے نائب خیرالانام
یہ کیسا در ہے، جس دَر سے خیر و برکت سمیٹ کر غریب نواز بننے والے خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ نائبِ رسولؐ کہلاتے ہیں۔ اجودھن کو پاک پتن بنانے والے، زہد الانبیاء کہلوانے والے، بابِ تفرید کے شہہ نشین بابا فرید الدین گنج شکرؒ یہاں گھٹنوں کے بل آتے تھے۔ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری راوی کے پار ہی سے سلام کر کے واپس ہو لیتے ہیں۔
ہمیں اس ہستی کے حضور سلام پیش کرنا ہے، لیکن ابھی تمہیدی کلمات سے آگے نہیں بڑھ سکے، کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ ناقص کی رائے ناقص، ناقص کا خیال ناقص …… جبکہ بات کاملین کی ہے!! اگر زمین سے آسمان کا فاصلہ طے ہو سکتا ہے تو اس ہستی کی تعریف و تعارف کا بھی کوئی حق ادا ہو سکتا ہے۔ کامل کی تعریف کاملین ہی کی زبان سے ہو تو معتبر ہے۔
کالم کے آغاز میں سوچا تھا کہ حضور فیضِ عالمؒ کی مختصر سوانح اور ان کی شہرہ آفاق تصنیف ”کشف المحجوب“ کے متعلق خامہ فرسائی کروں گا، لیکن یہ ساری تحریر ایک کیفیاتی مضمون میں ڈھل کر رہ گئی ہے۔ اس لیے اپنے پاس سے کچھ کہنے کے بجائے انہی کی بات کہی جائے جنہوں نے پہلے سے کچھ کہہ رکھا ہے۔ یہاں دربار شریف کے برآمدوں اور غلام گردشوں کی دیواروں پر مولانا جامیؒ سے لے کر علامہ اقبالؒ تک اور علامہ اقبال سے لے کر حضرت واصف علی تک مختلف عرفائے امت کے سیکڑوں اشعار درج ہیں، راقم اسے وزیٹرز بک کہتا ہے۔ اسی وزیٹرز گیلری سے چند ایک تاثرات یہاں منتقل کرنے کی کاوش کرتا ہوں۔
علامہ اقبالؒ یہاں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں …… یاد رہے کہ علامہ نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا خیال مجھ پر اس وقت القاء ہوا جب تہجد اور فجر کے درمیان میں سیدِ ہجویرؒ کے مزارِ اقدس پر حاضر و مراقب ہوا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے نظریہ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے سلسلے میں روحانی ڈیوٹی پر موجود اولیاء اللہ نے بہت دیر سے کام شروع کر رکھا تھا…… اپنے فارسی کلام ”اسرارِ خودی“ میں حضرِتِ علامہ نے ایک طویل نظم بعنوان ”اسرار و رموز“ کہی ہے، اس میں منقبت کے پردے میں انہوں نے سیدِ ہجویرؒ سے اپنا ایک روحانی مکالمہ درج کیا ہے، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہے:
سید ہجویر مخدومِ اُمم
مرقد او پیر سنجر را حرم
بند ہای کوہسار آسان گسیخت
در زمین ہند تخمِ سجدہ ریخت
عہد فاروق از جمالش تازہ شد
حق ز حرفِ اُو بلند آوازہ شد
پاسبان عزتِ اُمّ الکتاب
از نگاہش خانہئ باطل خراب
خاکِ پنجاب اَز دمِ اُو زندہ گشت
صبحِ ما از مہرِ اُو تابندہ گشت
(ہجویر کے سیّد اور امتوں کے مخدوم کہ جن کا مزار پیرِ سنجر (حضرت معین الدین اجمیریؒ) کے لئے بمنزلہئ حرم ہے۔ آپؒ نے پہاڑوں کے کٹھن راستے آسانی سے طے کیے اور سرزمینِ ہند میں سجدے کا بیج کاشت کیا۔ آپؒ کے جمال سے دورِ فاروقی گویا تازہ ہو گیا اورآپؒ کی باتوں سے دینِ حق کا شہرہ بلند ہوا۔ آپؒ اُمّ الکتاب کی عزت و ناموس کے پاسبان ہیں اور آپؒ کی ایک نگاہ سے باطل کے گھر برباد ہو گئے۔ پنجاب کی زمین آپؒ کے دم سے زندہ ہو گئی اور ہماری صبح آپؒ کے آفتاب سے روشن ہو گئی)
ہمارے مرشد حضرت واصف علی واصفؒ کی 23 اشعار پر مشتمل ایک طویل منقبت بھی وہاں مشرقی برآمدے میں قدِ آدم کے برابرایک سنگِ سفید پر نقش ہے۔ چند چنیدہ اشعار ذوقِ معرفت کی تسکین کے لیے پیشِ خدمت ہیں:
السّلام اے سیّدِ ہجویر قطب الاولیاء
السّلام اے مرکزِ توحید، انوارِ الہٰ
سطوتِ علم الیقین و شوکتِ دینِ مبیں
رہبرِ اقلیمِ عرفانِ محمد مُصطفیٰﷺ
اے شہِ بطحیٰؐ کے نُور و کاشفِ رازِ خفی
شارحِ شانِ ولایت، نورِ چشمِ مرتضیٰؓ
کعبہئ گنجِ شکر، گنجِ ولایت، گنج بخش
قبلہئ گاہِ خواجہئ ہندالولی روضہ ترا
تُو بیانِ ”کشفِ محجوب“ و نشانِ بے نشاں
اے شہیدِ حسنِ کامل گنج بخشِ پیرِ ما
آستاں تیرا ہے گویا اک نشانِ دینِ حق
تیرے در پر جھک گیا جو، پا گیا راہِ خدا
دلّی و اجمیر میں گونجی صدائے گنج بخش
تیرا فیضانِ نظر قطرے کو دریا کر گیا
گنج بخشی ہے تری مشہور داتا گنج بخش
گاہے گاہے یک نگاہے بر فقیرِ بے نوا
واصفِ مسکیں چہ گوید ایں مقامِ حیرت است
خواجہئ من، قبلہئ من، گفت قولِ حق بجا
”گنج بخشِ فیضِ عالم، مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما“
اس دعا کے ساتھ قلم بند کیا جا رہا ہے کہ مالکِ کائنات ہمیں سچوں کی راہ دکھائے، سچوں کے ہمراہ کرے اور اس ہمراہی پر استقامت عطا کرے…… اس راہ پر استقامت ہی راہِ مستقیم ہے۔