نیویارک:وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانوں نے گزشتہ چار دہائیوں میں جنگ و جدل کا سامنا کیا ہے ، اب افغانستان میں قیام امن کی امید پیدا ہوئی ہے،اس نازک موڑ پر افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے ۔
انہوں نے کہا ہم گذشتہ چار دہائیوں سے اپنے محدود وسائل کے ساتھ، عالمی برادری کی مالی معاونت کے بغیر 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں، ہماری معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر افغانستان میں صورتحال کشیدہ ہوتی ہے تو پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو گا، ہم نے افغانستان سے مختلف ممالک کے شہریوں، سفارتی عملے اور میڈیا نمائندگان کے انخلاء میں بھرپور معاونت کی۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں پنپتے ہوئے انسانی بحران کے خطرے سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کو آگے بڑھ کر افغانوں کی مدد کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان، دیگر ہمسایوں کی طرح افغانستان میں اجتماعیت کی حامل جامع حکومت کے قیام کا خواہاں ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں مفاہمت کا عمل اجتماعیت کی حامل حکومت کے قیام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام چاہتاہے، طالبان رہنماؤں کی جانب سے سامنے آنے والے ابتدائی بیانات حوصلہ افزا ہیں۔
انہوںنے کہاکہ عالمی رائے کا احترام اور اپنے وعدوں کی پاسداری طالبان کے بہتر مفاد میں ہے، میری رائے میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کو افغانوں کیلئے کھولنا بہتر ہو گا یہ اعتماد سازی کیلئے اہم اقدام ہو سکتا ہے، افغانستان میں موجودہ تبدیلی کے دوران بہت سے مثبت پہلو بھی سامنے آئے، اس حالیہ تبدیلی کے دوران خون خرابے اور خانہ جنگی کا نہ ہونا، مثبت پہلو ہیں، طالبان کی طرف سے جنگ کے خاتمے، عام معافی کے اعلان، بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔