ان دنوں مجھے انتظار حسین کے ناقابلِ فراموش ناول ”بستی“ کا ایک کردار ”والد صاحب“ بڑی شدت سے یاد آتا ہے۔ ”والد صاحب“ کو بستی کے لوگ مولانا کے لقب سے پکارتے تھے اور پوچھا کرتے تھے:
”مولانا! قیامت کب آئے گی؟“
”جب سورج مغرب سے نکلے گا۔“
”سورج مغرب سے کب نکلے گا؟“
”جب مرغی بانگ دے گی اور مرغا گونگا ہو جائے گا۔“
”مرغی کب بانگ دے گی اور مرغا کب گونگا ہو گا؟“
”جب کلام کرنے والے چپ ہو جائیں گے اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے۔“
اس وقت اس دھرتی خصوصاً وطنِ عزیز کی صورتِ حال ایسی ہی ہے۔ بظاہر ایک ختم نہ ہونے والے آشوب قیامت نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ ہم روز بروز پستی کی طرف جا رہے ہیں مگر ہماری خود فریبی ہمیں مسلسل تھپکیاں دے دے کر اعلان کیے جاتی ہے کہ ہماری "ترقی" کا گراف بہت اونچا جا رہا ہے۔ ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہمارے دوست اور اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر نشیں ڈاکٹر یوسف خشک نے "پاکستان میں ادبی و لسانی تحقیق کے پچھتر برس" کے عنوان کے تحت ایک "ویبے نار" کا انعقاد کیا اور اظہار خیال کے لیے مجھے بھی مدعو کیا۔ خشک صاحب کی اس دعوت نے مجھے کچھ سوچنے اور کہنے کا موقع دیا۔ ایک مدت سے مجھے شرحِ صدر حاصل ہے کہ جب تک پاکستان کے موجودہ فرسودہ اور گلے سڑے تعلیمی نظام سے چھٹکارا نہیں مل جاتا، پاکستان کی حیاتِ تازہ کا خواب تعبیر سے محروم رہے گا۔ اس بھانت بھانت کے نظامِ تعلیم نے ہمیں بے سمتی، فکری انتشار اور آشوب کے سوا کچھ نہیں دیا۔ میں جس زمانے میں تہران یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ تھا، میں نے ایک رات ریڈیو پر (ان دنوں میں ٹی وی دیکھنے کے علاوہ ریڈیو بھی سنا کرتا تھا) کسی انگریز مقرر کی تقریر کا آخری حصہ سنا۔ تقریر کے بعد اعلان ہوا کہ برطانیہ کا وزیراعظم قوم سے خطاب کر رہا تھا۔ موصوف کہہ رہے تھے: اپنی قوم کی بقا اور تعمیر کے ضمن میں میری تین ترجیحات ہیں۔میں ہمہ تن گوش ہوا۔ کہا: میری پہلی ترجیح ہے "تعلیم"۔ اب میں اس کی دوسری اورتیسری ترجیح جاننے کے لیے بے تاب ہوا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے یہ جملہ کہا: میری دوسری ترجیح ہے تعلیم اور یہی میری تیسری ترجیح ہے! ادھر ہمارا عالم یہ ہے کہ ملک کے تمام شعبوں میں یہی شعبہ ہے جو سب سے زیادہ بے توجہی اور کسمپرسی کا شکار ہے اور " میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف" کی عبرت ناک تصویر بنا ہوا ہے۔ قیام ِ پاکستان کے وقت بھی محکوموں کے لیے بنایا گیا یہ نظام انگریز کا ساختہ پرداختہ اور فرسودہ نظام تھا اور اب بھی، بلکہ اب فرسودہ تر ہو گیا ہے کہ اب یہ انگلستانی استعمار سے زیادہ امریکی استعمار اور صارفیت کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ ملانصرالدین نے ایک شام اپنی بیوی سے کسی دعوت میں چلنے کو کہا۔ بیوی روہانسی ہو کر بولی: میں چیتے کی کھال کے بنے اس ایک ہی پہناوے کو پہن پہن کر بیزار ہو گئی ہوں۔ کیا میں آخری عمر تک یہی ایک کوٹ پہنتی رہوں گی۔ ملّا بولا، کیا قباحت ہے آخر چیتے نے بھی تو آخر دم تک یہی ایک لباس زیب ِ تن کر رکھا تھا!
کاش تخلیقِ پاکستان کے ساتھ ہی ہماری پہلی اور آخری ترجیح تعلیم قرار پاتی اور ہم سب سے پہلے اپنے پرائمر ی کے تعلیمی نظام کو مستحکم اور دیر پا بنیادوں پر استوار کرتے۔ بدقسمتی سے ہم ایسا نہ کر پائے اور اب حالت یہ ہے کہ بنیاد سے لے کر ثریا تک ہم مسلسل عبرت ناک کج دیواری کو دیکھے چلے
جارہے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے! ہم پچھلے پچھتر برس میں اس ٹیڑھی اور لڑکھڑاتی دیوار کی ظاہری زیب و زینت میں لگے ہوئے ہیں اور قائم چاند پوری کے عہد زوال سے لے کر ہمارے عہد تک ایک ہی سچ ہے جو اپنا اعلان کیے جاتا ہے:
گر رہا ہے رواق ہم غافل۔ فکرِ نقش و نگار کرتے ہیں
آپ پاکستان کی دانشگاہوں ہی پر ایک نگاہ ڈال لیں، بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ سنگ و خشت سے بنی یہ عمارتیں علم کی روشنی سے کس قدر تہی ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں قومی تشخص اور ملی وقار کی تولید و تخلیق سے عاری، زیادہ تر اعدادو شمار کی شعبدہ بازیوں میں مگن ہیں۔ ملک بھر میں جامعات کی تعداد ڈھائی سو کے قریب ہے جن میں پبلک جامعات کی تعداد ایک سو اکتالیس ہے۔ ملک میں ایک مدت سے سائنس اور میڈیکل علوم کی ہانک پکار ہو رہی ہے۔ کیا کسی پاکستانی یونیورسٹی کو توفیق ہوئی کہ اس کے فیض سے کوئی سائنسی ایجاد ہمارے حصے میں بھی آتی؟ پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی پچھلے دوبرس سے کووڈ 19 نے تباہی مچا اور دہشت پھیلا رکھی ہے۔ کیا کسی دانشگاہ کی کسی معمل یا لیبارٹری کو توفیق ہوئی کہ وہ بھی اس ہلاکت خیز وائرس کی ویکسین تیار کرتی؟ ہم اور ہمارے حاکم صرف ایک کام میں مہارت رکھتے ہیں، یعنی کشکول گیری اور امداد طلبی! سعودی عرب ہمیں ادھار میں تیل عطا کر دے تو ہم پھولے نہیں سماتے۔ پورا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایات اور قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے۔ ہماری آنے والی کئی نسلیں اسی عذاب کو ایک مدت تک بھگتیں گی۔ کاش ہم ہوش کے ناخن لیں کہ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔
اہلِ نظر اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں کہ قوموں کو عروج بڑے مقاصد اور متعین رخ سے ملتا ہے اور ا ن بڑے مقاصد اور اطراف و اہداف کا تعین ملک کا خدا دوست دانشور طبقہ کرتا ہے۔ دانشوری کی روشن روایات دانشگاہوں کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ ہماری دانشگاہیں فکری اضمحلال کا شکار تو تھیں ہی، رہی سہی کسر نام نہاد ہائر ایجوکیشن کمیشن نے نکال دی ہے۔ اس ادارے کا سارا زور ظواہر پر ہے اور اس نے خود مختار دانشگاہوں کو پابند کر دیا ہے کہ وہ اپنے مالیات خود پیدا کریں۔ لہٰذا ایسے علم کْش فیصلوں کے نتیجے میں علم جو ایک نور تھا، پیسوں کی میزان میں تلنے لگا ہے۔ امریکی صارفیت سے مرعوب اس ا دارے نے تحقیقی جرائد کی مالی امداد بند کر دی ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایچ ای سی کے منظور شدہ درجہ بند مجلوں میں کسی محقق کا کوئی آرٹیکل اس وقت تک شائع نہیں ہو سکتا جب تک پہلے پندرہ بیس ہزار سے پچاس ہزار روپے تک کی ادائیگی مجلے کے کارپردازوں کو نہ کر دی جائے۔ کیااس شرمناک طریقے سے اعلیٰ تحقیق کے دروازے کھلیں گے یا مسدود ہو جائیں گے، اس کا بہ آسا نی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر دانشگاہوں کو اسی طرح زر اندوزی اور زر طلبی ہی پر لگا کر ان کی عزت و آبرو کو پامال کرنا ہے تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سے سفید ہاتھی کو کس لیے پالا جا رہا ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب پاکستانی دانشگاہیں ازروئے ضابطہ خود مختار ہیں تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ان پر حاکمیت کے کیا معنی ہیں؟
مغربی تقلید میں اب ہمارے ہاں طالب علم ”کلائنٹ“ بنایا جا رہا ہے اور ترسیل علم کے لیے ”ورکشاپیں“ منعقد کی جاتی ہیں،حال آنکہ ورکشاپوں میں صرف گاڑیوں کی مرمت ہوتی تھی اور اب بھی ہوتی ہے۔ دراصل زوال کے زمانے میں اصطلاحات اپنے معانی کھو دیتی ہیں اور یہی پاکستانی مراکزِ علم میں ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اب مقصود سچا علم اور اس کی ترویج نہیں، صرف زر اندوزی اور پیسہ بنانے کا جنون ہے۔ علمی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں تو شرکاء سے بھاری رجسٹریشن فیس لی جاتی ہے، کالجوں یونیورسٹیوں میں داخلے کے وقت ایک ایک پراسپکٹس غریب امیدواروں کو ہزاروں روپوں میں فروخت کی جاتی ہے۔ کسی دانشگا ہ میں تدریس کے لیے انتخاب کی درخواست دینے کا فارم ہزاروں روپوں میں بیچا جاتا ہے۔ یعنی پیسہ، پیسہ اور صرف پیسہ! ایسی صورت حال میں علم عنقا ہو جاتا ہے اور صرف اینٹ پتھر کی بے جان سنگیں عمارتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے تقریباً سوا سو برس پہلے کہا تھا:
اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجیے
اخبار میں تو نام مرا چھاپ دیجیے
آج گرہ سے دینا تو کجا، مظلوم محققوں اور ریسرچ سکالروں کی جیبوں پر بڑی بے دردی سے ڈاکہ ڈالا جارہاہے۔ ان حالات میں کسی غریب کے بچے کا علم حاصل کرنا اور آگے بڑھنا ناممکن بنایا جا رہا ہے۔ علم و آگہی کی یہ تذلیل کسی عذابِ الٰہی سے کم نہیں۔ ان مادہ پرست زر طلبوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علم پیغمبروں کا ورثہ ہے، روشنی ہے، نور ہے، حلاوت ہے اور یہ صرف انھی سینوں میں جگہ پاتا ہے جو طمع سے خالی ہوں۔ سعدی نے کس قدر درست فرمایا تھا کہ طمع کے تین حرف ہیں اور تینوں خالی ہیں۔ طمع کرنے والوں کا سینہ نور کا آئینہ اور شہد شیریں کا آبگینہ نہیں ہو سکتا۔ سواے علم کے تاجرو، علم کو جنسِ تجارت بنانے سے حذر کر و اور اپنے اندر یہ بات راسخ کر لو کہ دانشگاہیں علم کی ترویج ہی نہیں کرتیں، سچے علم اور کھری آگہی کی تولید اور تخلیق بھی کرتی ہیں۔ ایسا نہ ہو تو کلام کرنے والے چپ ہو جاتے ہیں اور جوتے کے تسمے باتیں کرنے لگتے ہیں!