دروازہ زور سے کھٹکا بلکہ اتنی تیز و تند سی دستک نے مجھے ہڑبڑانے پر مجبور کر دیا۔میں نے جلدی سے دوازہ کھولا تو آنے والا شخص میرا دوست متزلزل اداس تھا۔میں نے آنے کا مطلب پوچھا۔کہنے لگا مجھے آپ سے ایک سوال کا جواب درکار ہے۔میں نے کہا پوچھیے! میں اپنی بساط کے مطابق آپ کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔وہ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے؟بھلا یہ غذا کیسے ہوئی؟ہم کونسا اس کو کھاتے ہیں یا پیتے ہیں؟پھر یہ غذا کیسے ہوئی؟میں نے کہا کہ انسان کی خوشی،غمی اور یاسیت اس کے اندر کے موسم پر منحصر ہے۔باہر اگر موسم بہار بھی ہو اگر انسان اندر سے دکھ کی لے پر ناچ رہا ہے تو وہ پھول اور کلیاں اس کے لیے بے معانی ہیں۔اسی طرح نہایت افسردگی، پژمردگی، دکھ اور غم کی صورت میں کوئی ساز کوئی گیت،حمد و نعت کی تان،کافی کی لے حتیٰ کہ ڈھول کی تھاپ آپ کو ذرا سی فرحت بخشتی ہے تو وہ آپ کی روح کے لیے خوشی یا راحت کی غذا کا سامان پیدا کرتی ہے۔ جیسے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے ترانے نے پی ٹی آئی کی روح کے لیے غذا کا کام کیا تھا اور وہی غذا اب عوام کے حلق میں اڑی ہوئی ہے۔فوراً بولے اچھا اچھا بات سمجھ آگئی ہے چلو یہ تو معاملہ حل ہوا کہ واقعی موسیقی روح کی غذا ہے۔چلیں مرزا غالب کے ایک شعر کی تشریح بھی بتا دیجیے وہ بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ میں نے کہا ان کی سمجھ سے بالا تر ہو گی جنہیں عقل ہو گی۔تم تو خود کہتے ہو ”عقل نہیں تے موجاں ای موجاں“(ویسے اتنی مہنگائی میں بغیر عقل اور سمجھ کے ہی زندہ رہا جا سکتا ہے)میں ذرا پریشان ہو گیا کہ مرزا غالب جیسے بڑے شاعر کے اشعار کی تشریح تو بسا اوقات اچھے بھلے عالم کی اوقات سے باہر ہو جاتی ہے۔میں تو پھر
انتہائی کم علم ہوں۔ عزت جانے کے خوف سے میں نے کہا سنائیے کونسا شعر ہے۔بولے!
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
میں نے کہا! مولوی غلام رسول مہر کی شرح کے مطابق: اے غالب! جنت کا جو عام تصور ہے،یعنی باغ،نہریں اور حوریں وغیرہ اس کی حقیقت ہمیں معلوم ہے البتہ اس قسم کے خیالات دل خوش رکھنے کے لیے بڑے اچھے ہیں۔دراصل اس شعر میں مرزا غالب نے جنت کے متعلق صرف عام افکار کا ذکر کرتے ہوئے انہیں دل خوش کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ بولے میرے پلے کچھ نہیں پڑا مجھے موجودہ دور کی کوئی مثال دے کر سمجھائیے۔میں نے کہا ٹھیک ہے۔پھر سنیے۔جیسے پچھلے دنوں سندھ حکومت کے نمائندے مرتضیٰ وہاب نے بیان دیا ہے کہ سندھ کے ہسپتالوں میں علاج و معالجے کی اتنی جدید سہولتیں ہیں اور اتنے ماہر ڈاکٹر ہیں کہ سندھ میں بیرون ممالک کینیڈا،جاپان اور یورپ سے مریض علاج کرانے آتے ہیں۔بس اسے کہتے ہیں کہ دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے اور اسی طرح صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”اگر تحریک انصاف کی حکومت پانچ برس پہلے آجاتی تو آج ہمارے حالات بہت بہتر ہوتے“ علوی صاحب کا یہ بیان بھی غالب اس شعر کی پوری پوری طرفداری کرتا ہے۔۔فوراً بولے جیا جیا مجھے مکمل سمجھ آ گئی ہے۔کہنے لگے بس ایک سوال اور۔۔۔میں نے کہا جلد پوچھیے مجھے کہیں جانا ہے۔بولے یہ حکومت دعوے کرتی ہے۔اعلان کرتی ہے۔ فرمان سناتی ہے۔مگر کرتی کچھ نہیں ہے۔کسی حکم پر عمل نہیں کراتی۔ کوئی جزا سزا کا عمل نہیں ہے۔ میں نے کہا آپ اس مثال سے اپنے آپ کو کلیئر کر لو۔ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک موسیقار کسی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں اس نے بادشاہ کو موسیقی سنانی شروع کی۔ بادشاہ کو اس کی دھنیں بہت پسند آئیں اور بادشاہ نے کہا اسے نہر کے پاس والی جاگیر انعام میں دے دو۔ موسیقار نے مزید دھنیں چھیڑ دیں اور پوری لے اور تان کے ساتھ بادشاہ سلامت کا دل موہنے میں کامیاب ہو گیا۔بادشاہ نے پھر کہا اسے ہیرے جواہرات بھی دے دو، موسیقار نے اور دھنیں بجانی شروع کر دیں۔ بادشاہ نے کہا اسے ایک لاکھ اشرفیاں بھی دے دو۔ موسیقار اس محفل سے بڑا خوش ہو کر گھر آ گیا اور آ کر اپنی بیوی کو بتایا کہ آج میں بہت انعام و اکرام لوٹ کرلایا ہوں۔ بادشاہ کے دربار سے، بیوی بھی بہت خوش ہوئی۔ اب وہ دونوں تین چار دن انتظار کرتے رہے مگر سلطنت کے کسی نمائندے نے نہ ان سے رابطہ کیا اور نہ ہی موسیقار کاانعام اسے پہنچایا۔ آخر کار موسیقار کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں جا پہنچا۔ بادشاہ سے اس نے کہا کہ عالی جاہ! وہ انعام ابھی تک مجھے نہیں ملے۔ بادشاہ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔۔۔ کیسے انعام۔۔۔اور کیسی جاگیر۔ تم نے میرے کانوں کو خوش کیا اور میں نے تمہارے کانوں کو خوش کیا۔ حساب برابر۔ حکومت پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے بھی کچھ ایسے ہی ہیں اور آنے والے بقیہ وقت میں بھی ایسے ہی ہونگے۔متزلزل اداس چپ چاپ اٹھا،منہ پر ماسک چڑھایا اور بغیر اجازت لیے رفو چکر ہو گیا۔