اجمل نیازی زندگی سے موت تک !

اجمل نیازی زندگی سے موت تک !

ڈاکٹراجمل نیازی بھی چلے گئے، اِک چراغ اور بُجھ گیا، وہ گزشتہ کچھ برسوں سے علیل تھے، کمزور سے جسم کا مالک یہ شخص اپنی طویل بیماری کے دوران اِس قدر ہمت، صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرے گا؟ بظاہر یہ ناممکن سی اِک بات نظر آتی تھی، اجمل نیازی نے اِسے ممکن بنادیا، بیماری کا مقابلہ وہ اُسی ہمت وطاقت سے کرتے رہے جس ہمت وطاقت سے اُنہوں نے زندگی میں آنے والے بے شمار مسائل کا مقابلہ کیا، اُن کی فیملی میں اور پڑھے لکھے لوگ بھی تھے، اُن کے ایک بھائی اکبر خان نیازی شاید گورنمنٹ کالج تلہ گنگ کے پرنسپل بھی رہے، ایک بھانجے اسد ایوب نیازی بھی ایک سرکاری کالج میں پڑھاتے ہیں، اُن کے علاوہ اُن کے خاندان میں کچھ اور لوگ بھی اہم عہدوں پر ہیں، مگر بطور ایک دانشور اُستاد خصوصاً بطور کالم نویس جو شہرت اجمل نیازی کو ملی وہ اُن کے خاندان کے کسی اور فرد کو نہیں ملی، یہ الگ بات ہے کہ نیازی قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شعبے کی کسی اہم شخصیت کو کسی بھی حوالے سے شہرت ملی اُسے اُنہوں نے اپنی شہرت سمجھا، صرف ایک جنرل نیازی مرحوم تھے جن سے وہ نالاں تھے، اُسے ’’نیازی‘‘ ہی نہیں سمجھتے تھے، عمران خان کے وہ سخت ناقد تھے، اِس کے باوجود جب وہ وزیراعظم بنے، وہ بہت خوش تھے کہ اُن کے قبیلے کا ایک شخص وزیراعظم بن گیا، اُن کا خیال تھا جنرل نیازی کی وجہ سے جو زخم پاکستان کو لگا تھا عمران خان اُس کا ازالہ کریں گے، عمران خان یہ ازالہ کرپائے یا نہیں؟ اِس کا فیصلہ بھی ظاہر ہے تاریخ کردے گی، لالہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ بھی اُنہیں بڑی محبت تھی، میں جب اجمل نیازی کو ’’لالہ‘‘ کہتا وہ فرماتے ’’ یہ لفظ (لالہ ) صرف عطا اللہ عیسیٰ خیلوی پر سجتا ہے، لالہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی ان دنوں ڈینگی کا مقابلہ کررہے ہیں، وہ اجمل نیازی کے جنازے میں نہیں آئے، مگر یہ صدمہ اُن کے لیے یقیناً ناقابل برداشت ہوگا، میں نے تو انہیں اجمل نیازی کے انتقال پر فون بھی نہیں کیا کہ مختلف بیماریوں ، اور اب ڈینگی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا یہ شخص اِس سوگوار خبر کا مقابلہ پتہ نہیں کرپائے گا یا نہیں؟۔ اجمل نیازی کو جو شہرت ملی اِس حوالے سے اپنے خاندان میں اُن کا ایک اہم مقام تھا، اِس لحاظ سے اُن پر ذمہ داریاں بھی بہت تھیں، لاہور یا میانوالی میں اُن کے خاندان کے کسی فرد پر کسی بھی حوالے سے  کوئی مشکل آتی اُسے حل کرنا اجمل نیازی ہی کی ذمہ داری ہوتی تھی، اپنے بہن بھائیوں اپنے رشتہ داروں کے حقوق کا جتنا خیال اُنہوں نے رکھا اِس کی توفیق اب بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے، اپنی والدہ کے ساتھ محبت اور خدمت کا جو حق اُنہوں نے ادا کرنے کی ہرممکن کوشش کی اس کی توفیق بھی بہت کم لوگوں کو اب ہوتی ہے، اُن کے دوبھائی اور بھی تھے مگر اُن کی والدہ  اُن کے ساتھ رہنے میں زیادہ عافیت محسوس کرتی تھیں، یہ یقیناً اُن کی خوش قسمتی تھی، صرف اُنہوں نے ہی نہیں، اُن کی بیگم (رفعت بھابی) نے بھی اُن کی والدہ کی جو خدمت بالخصوص اُن کی بیماری کے آخری دنوں میں اُن کے لیے کی اِس دور کی کوئی بہو تو دُور کی بات ہے کوئی بیٹی بھی اُس کا تصور نہیں کرسکتی، اجمل نیازی جتنے عظیم انسان تھے اُن کی بیگم اُن سے بھی بڑھ کر عظیم ہیں، …اجمل نیازی کو شوگر اور بلڈپریشر کے امراض لاحق تھے، اِس کے باوجود وہ بڑی بھرپور زندگی گزاررہے تھے، وہ ہر اُس تقریب میں شرکت فرماتے جس کی اُنہیں دعوت دی جاتی، یا جس کے لیے وہ وعدہ کرلیتے، دو برس قبل جب اُن کے باپ جیسے بڑے بھائی اکبر خان نیازی کا انتقال ہوا اُس کے بعد وہ چُپ چُپ سے رہنے لگے، اُس کے کچھ ہی عرصہ بعد اُن کے جڑواں بھائی اصغر خان نیازی بھی انتقال فرما گئے، پھر وہ مزید اُداس رہنے لگے، چند دنوں بعد اُن کی والدہ محترمہ بھی طویل علالت کے بعد اللہ کو پیاری ہو گئیں، یہ اُن کی اُداسی کی انتہا تھی، یہی انتہا اُن کی بیماریوں میں تبدیل ہوگئی، پے درپے صدمات نے اُنہیں ہلاکر رکھ دیا، کچھ عرصے بعد اِک روز واش روم میں گرنے سے اُن کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی، اُس موقع پر میرے بھائی جان پروفیسر عامر عزیز نے اُن کی جو خدمت کی اُس کا صِلہ اللہ ہی اُنہیں دے سکتا ہے، جو ’’انسانیت کی خدمت‘‘ کی صورت میں اللہ نے انہیں دیا بھی ہوا ہے، ورنہ اس ’’کمرشل سوچ کے حامل معاشرے‘‘ میں یہ ممکن ہی نہیں کسی شخص کی بیگم کا انتقال ہوگیا ہو، وہ خود بھی کورونا کا شکار ہوتے ہوتے  بچا ہو، کورونا نے اُسے اتنا لاغر کردیا ہو چند قدم چلنے کے بعد اُس کا سانس پھولنے لگے، اور اِس کے باوجود وہ مستحق مریضوں کے آپریشن وعلاج کرنے میں مگن رہے،ایسے ’’مسیحائوں‘‘ کو ہم داد دیں، جتنی ہم دعائیں دیں، اُن کے لیے جتنی ہم تالیاں بجائیں کم ہیں… اجمل نیازی کے ساتھ اُن کی محبت کا یہ عالم تھا ان کے لیے اُنہوں نے مستقل بنیادوں پر ایک ’’اٹینڈنٹ‘‘ کا بندوبست بھی کیا ہوا تھا، وہ اٹینڈنٹ بھی اجمل نیازی کے عشق میں مبتلا ہوگیا تھا، وہ ایسے اُن کی دیکھ بھال کرتا جیسے کوئی اپنے باپ کی بھی شاید نہ کرتا ہو،… وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز جیسے ’’فرشتوں‘‘ کی قربت جنہیں حاصل ہوتی ہے، … اُن کی توجہ اور آپریشن سے اجمل نیازی کے کولہے کی ہڈی تو ٹھیک ہوگئی، وہ چلنے پھرنے کے قابل بھی ہوگئے مگر بڑے اور چھوٹے بھائی، اُس کے بعد والدہ کے انتقال کا غم مزید بیماریوں کا سبب بن گیا، … اُن کے کئی کمالات تھے، وہ صرف اپنے رشتہ داروں کے لیے ہی نہیں اپنے دوستوں شاگردوں اور محلے داروں کے لیے بھی بہت کیئرنگ تھے، میرا اُن کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں تھا، وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے اُستاد تھے، اِس کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور سے جس علمی ادبی و ثقافتی ادارے ’’ہم سخن ساتھی‘‘ کا میں نے آغاز کیا وہ اُس کے سرپرستوں میں سے تھے، جناب احمد ندیم قاسمی، جناب اشفاق احمد، بانو آپا، جناب عطا الحق قاسمی، جناب امجد اسلام امجد، حسن رضوی مرحوم ، محترمہ بشریٰ رحمان، چودھری محمداقبال اور دلدار پرویز بھٹی کی سرپرستی بھی ’’ادارہ ہم سخن ساتھی‘‘ کو حاصل تھی، اِس ادارے کے زیراہتمام منعقد ہونے والی اکثر ادبی وثقافتی تقریبات کی کمپیئرنگ دلدار پرویز بھٹی کرتے تھے، البتہ وہ جب بیرون ملک ہوتے تو اِس کام کے لیے ہم اجمل نیازی سے گزارش کرتے۔ (جاری ہے)