وطنِ عزیز کی معیشت کا پہیہ چلانے میں غیر ملکی تارکینِ وطن جنھیں آج کے معروف الفاظ میں اوورسیز کہا جاتا ہے، اہمیت مسلّمہ ہے۔ موجودہ حکمران سیاسی جماعت کا تو اول دن سے یہ بیانیہ رہا ہے کہ وہ تارکین وطن کی نمائندہ جماعت ہے اور وہ تارکین وطن کے ووٹ کے حق کے لیے بھی سرگرم ہے۔ماہ اگست میں وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ’’روشن اپنا گھر پروگرام‘‘ کی تقریب میں اپنے خطاب میں 90 لاکھ پاکستانی تارکین وطن کو قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے راستے میں سب سے بڑی روکاوٹ بدعنوانی ہے۔انہوں نے روشن اپنا گھر پروگرام کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا کہ تارکین وطن کے پلاٹوں پر قبضہ کی شکایات عام ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ملک بھر میں قبضہ گروپوں کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روشن اپنا گھر پروگرام میں قبضوں کی روک تھام کے لیے بنک گارنٹی فراہم کریں گے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نوے لاکھ تارکین وطن کے پاس ملک کی جی ڈی پی کے مساوی پیسہ موجود ہے۔ لیکن ملک میں سرمایہ کاری کے لیے غیر محفوظ ماحول کی وجہ سے صرف اتنا ہی زرمبادلہ موصول ہوتا ہے جو تارکین وطن اپنے بچوںکوضروریات کے لیے بھیجتے ہیں۔ جب کہ اُن کے سرمائے کا ایک بڑا حصہ غیر ممالک میں موجود ہے۔جس کی بنیادی وجہ ملک کے نظام میں بدعنوانی اور قبضہ مافیاکا رسوخ ہے۔کتنے ہی پاکستانی تارکین وطن بھرپور جذبوں سے اپنے وطن لوٹتے ہیں کہ وہ یہاںسرمایہ کاری کریں گے لیکن سسٹم میں موجود خرابیوں کے سبب دل برادشتہ ہوکر واپس چلے جاتے ہیں۔
ایک اوور سیز پاکستانی خاتون سعیدہ ندیم کا خط ایک مئوقر اخبار میں شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے ایل ڈی اے کے اہلکاروں کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر حکام بالا کی توجہ دلائی۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور کی نیسپاک ہائوسنگ اسکیم فیز 2 میں ایک پلاٹ خریدا۔ ایل ڈی اے سے اس کا نقشہ منظور کروایااور تعمیر کا آغاز کردیا۔بنیادی تعمیر کا مرحلہ جاری تھا اور بنیادی ڈالی جاچکی تھیں کہ پڑوس کے مالک مکان نے روکاوٹیںڈالنا شروع کردیں اور سول کورٹ سےSTAY لے لیا۔کیس ایل ڈی اے میں چلا گیا اور ایل ڈی اے ڈائریکٹر نے فیصلہ دیا کہ اوور سیز پاکستانی خاتون نقشہ کو MIRROR کریں اور گیٹ دوسری طرف لے جائیں۔ جب کہ پڑوس کا مالک مکان (جس کا نقشہ بھی ایل ڈی اے سے منظور نہیں ہے) اپنے گھر کا ریمپ 22 فٹ کی بجائے12 فٹ پر لے کر جائے گا اور نیسپاک سوسائٹی سامنے سڑک تعمیر کرے گی۔اس سارے کام کی تکمیل کے لیے ایل ڈی اے نے پندرہ دن کا وقت متعین کیا۔خاتون نے اضافی رقم خرچ کرکے ایل ڈی اے کے حکم پر من و عن عمل کیا۔مگر پڑوس کے مالک مکان نے ایل ڈی اے کے حکم کو اہمیت نہ دی اور اُن کے مکان کی ہئیت پرانی ہی رہی۔اب صورت حال یہ کہ خاتون کا گھر تعمیر ہوچکا ہے لیکن گھر میں داخل ہونے کا راستہ بند ہے۔ خاتون کی متعدد درخواستوں اور پاکستان میں ان کے عزیزوں کی جانب سے ایل ڈی اے دفاتر اور عدالتوں میں درجنوں حاضریوں کے باوجود، غیر قانونی قبضے اور تعمیر کے خلاف قانونی کاروائی تو درکنار ایل ڈی اے گزشتہ ایک سال سے اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد کروانے سے نہ معلوم وجوہات کی بنا پر قاصر ہے۔اب وہ خاتون دفاتر اور عدالتوں کے چکر پر چکر لگا رہی ہیں مگر سنوائی نہیں ہورہی ہے۔ یہ صرف ایک معمولی سی مثال ہے ہمارے اس معاشرے کی جہاں تارکین وطن پاکستانیوں کو قومی اثاثہ کہا جاتا ہے۔
ا گر ملک میں پاکستانی تارکین وطن کے سرمائے کو مکمل تحفظ فراہم ہوجائے تو ملک میں نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے بلکہ اس کے ساتھ برآمدات اور درآمدات میں وسیع خلاء بھی پُر ہوسکے گا۔ ہمیں آئے روز جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس قرض کی درخواستیں ڈالنی پڑتی ہیں اُس سے بھی نجات ملے گی۔ ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستانی تارکین وطن نے ہمیشہ ملک کی خراب معاشی حالت کو سہارا دیا ہے، لیکن اس کا صرف زبانی اعتراف کافی نہیں ہوگا بلکہ ہمارے اداروں میں فائز افراد کو بھی انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر اپنا فریضہ دیانت داری سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔