دن کے اجالے میں یونان سے رخصت ہوکر دن کے اجالے ہی میں ہم نے سوادروم کو پالیا۔ دنیاکے عظیم حصے پر حکمرانی کرنے والا روم جورومۃ الکبریٰ کہلایا ،جہاں اٹھائیس صدیوں سے زندگی کی رونقیں جلوہ آراہیں ،جو صرف آج کے اٹلی کا دارالحکومت نہیں بلکہ اپنی اہمیت کی بناپردنیابھرکا دارالحکومت کہلاتارہاہے، یہ اعزاز روم کے علاوہ یروشلم اور قسطنطنیہ کو بھی حاصل رہا۔ روم،جو ابدی شہرکہلاتاہے، جہاں ویٹی کن ہے، جسے ایک شہر کے اندرواقع آزاد وخودمختار ملک کی حیثیت حاصل ہے ۔جس کے طفیل لامذہب وحشیوں اور قیاصرہ کا روم، پاپائے مسیحیت کا روم بنا۔وہ روم جہاں مسیحیت اختیارکرنے والوں کو اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں ،چوتھی صدی عیسوی سے مسیحیت کا پرچم بلندکیے ہوئے ہے ۔جس کے آباداور پررونق شہر ہی نہیں ویران کھنڈر بھی دنیاکی تاریخ میں ناقابل فراموش حیثیت رکھتے ہیں،جو مسولینی کے بعدسے صدرجمہوریہ کاروم اورآبادی کے اعتبارسے یورپین یونین کا تیسرا بڑا شہرہے ،جہاں ہر دورکی یادگاریں ہیں،جہاںدریائے ٹائبربہتاہے ،جہاں تریوی فوارہ زندگی بکھیررہاہے ، جہاں کلوسیم درس عبرت دے رہاہے… ہماراجہاز اسی روم کی سرزمین کی جانب بڑھ رہاتھا۔ ایتھنزسے شروع ہونے والا ڈھائی تین گھنٹے کا سفر اختتام کو پہنچنے والاتھا۔ اب روم کا ہوائی مستقرسامنے تھا۔روم کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کانام Leonardo da Vinci International Airportہے۔جی ہاں وہی لیونارڈوڈاونچی(۱۴۵۲ء…۱۵۹۱ء) جس نے مونا لیزاکی مسکراہٹ تخلیق کی تھی۔میں سوچ رہاتھا کہ روم میں ایرپورٹ کانام ایک فنکار کے نام پرہے، جاپان میں کرنسی نوٹوں پر ادیبوں شاعروں کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں… آخر ترقی پذیر ممالک میں تخلیق کاروں کو یہ مقام کیوں حاصل نہیں ہوتا؟ وہاں کافن کار عمربھر کیوں کسمساتارہتاہے اوراسے زمانہ مرنے کے بعدبھی یادنہیں کرتا۔ وہ مقام جو اٹلی اور جاپان میں فنکاروں کو حاصل ہے وہ ان ملکوں میں صرف حکمرانوں اورکامیاب سیاستدانوں کوکیوں ملتاہے ؟
اٹلی میں داخلے کی رسمیات طے کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا، اٹلی کی سفارت پاکستان کے نمائندے نے ہمارااستقبال کیا اور ہم جلد ایرپورٹ سے باہر آگئے ۔ڈپلومیٹک کار روم کی سڑکوں پر دوڑتی رہی۔ میں اور حذیفہ اردگردپھیلے جدید تمدن کے مظاہر دیکھتے رہے۔ پہلے پہل تو اردگرد کے مناظراور مظاہر میں دلچسپی قائم رہی لیکن پھر مسلسل سفرسے تھکن کااحساس ہونے لگا… یااللہ ختم کہیں ہوگایہ سفرکیا،منزل کبھی آئے گی نظرکیا؟ ایرپورٹ سے شہر تک کاراستہ ختم ہونے ہی میں نہیں آرہاتھا۔مجھے یہ خیال آیاکہ ہوٹل میں پہنچ کر نجانے کھانے کو کیا ملے، اس خیال کے
زیراثر میں نے سفارت ِپاکستان کے نمائندے سے کہاکہ راستے میں کوئی ایسی جگہ آئے جہاں سے ہمارے کھانے کے لائق کچھ مل سکے تو لے لیاجائے۔چنانچہ ہماری گاڑی ایک ایسے ہوٹل پر رکی جو میزبان صاحب کے مطابق مسلمانوں کا ہوٹل تھااورجہاں حلال غذا کا اہتمام تھا۔ ہمارا میزبان جو اطالوی زبان جانتاتھا ہمیں گونگے جان کر بڑے اعتمادسے آگے آگے چلتاہوا دکاندارسے ہم کلام ہوا۔ ہم دونو،ان دونو کے سامنے مورِبے پر بنے، بے زبان کھڑے تھے ۔ان دونو کے مذاکرات نے طول پکڑا۔میںاس دوران میں ہوٹل والے لڑکے کا رنگ ڈھنگ اور اس کے طوراطوار دیکھ رہاتھا۔ اس پر میںنے اس سے پوچھاکہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے ؟ وہ جھٹ بولا …مصر…بس پھرکیاتھا میری بھی مصری رگ پھڑک اٹھی اورمیںنے اس سے ہنس کر کہا پھر آپ کے سینگ کہاں ہیں ؟ قاہرہ میں جب ٹیکسی ڈرائیور مجھ سے میراوطن پوچھتے تو میں ازرہ مذاق کہتا’’مصر‘‘۔وہ گاڑی کے عقبی شیشے میں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہتے’’ مش ممکن‘‘یعنی ’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘…اس پر میںان سے کہاکرتاتھا: ’ائیوا،مفیش قرنین علی راسی‘‘جی ہاں، میرے سر پر دوسینگ جونہیں ہیں‘‘…اس مصری نوجوان سے مل کر بھی کچھ ایسے لگاجیسے ہم اٹلی کے دارالحکومت روم میں نہیں ،مصر کے صدرجمہوریہ قاہرہ میں ہیں۔باہمی خوش طبیعی اور بے تکلفی نے ہمارے درمیان فوراً ہی ہم آہنگی پیداکردی ۔ہمارامیزبان جو ہمیں ’بے زبان‘ سمجھ کر اپنی اطالوی کے ذریعے ہم غریبان ِوطن کی مساعدت کررہاتھا،ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے دیکھ کرحیران ہوگیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ یہ پاکستانی مہمان اٹلی میں داخل ہوتے ہی یوں جرات مندانہ یہاں کے کسی دکاندارسے گپ شپ کرسکتے ہوں گے۔بلاشبہ وہ طویل عرصے سے اٹلی میں رہنے کے باعث اطالوی زبان جانتاتھا لیکن ہم بھی منہ میں زبان رکھتے تھے، اطالوی نہ سہی مصری عامیہ یاعربی سہی …
ہماری گپ شپ کو دیکھ کر وہ ایک طرف ہوکر کھڑا ہو گیا۔ ایتھنزسے روانہ ہوتے وقت میری طبیعت کا جو رنگ تھا، سفرکی تھکن نے اس میں شامل ہوکر اس کے اضمحلال میں اضافہ کر دیا تھا ۔گلے کی خرابی کا آغاز ہو چکا تھا، میں چاہتاتھا کہ کہیں سے گرم پانی ملے تو میں غرارے کروں کہ اس سے خراب ہوتے گلے کو کچھ سکون ملنے کا امکان تھا لیکن اجنبی دیار میں داخل ہوتے ہی کون تھا جومجھے غرارے کرواتا ۔اب خوش طبع مصری نوجوان سے جوبے تکلفی ہوئی تو میںنے اسے اپنی خواہش سے آگاہ کیاکہ کاش اٹلی میں ’’بردہ قوش‘‘ ہوتا تو میں اپنے گلے کا علاج اس سے کرلیتالیکن اب یہی ممکن ہے کہ میں گرم پانی سے غرارے کروں۔’’بردہ قوش‘‘ ان بہت سے مصری قہووں میں سے ایک ہے جو عام مصری پیاکرتے ہیں اور جنھیں ’’زہورات‘‘یعنی پھولوں سے کشیدکیے گئے قہوے کہاجاتاہے۔ہر مصری قہوے کے اپنے خواص ہیں۔ بردہ قوش ،گلے کے لیے بہت مفیدہے بلکہ ہمارے زمانہ قیام مصر میں تو’’ بردہ قوش‘‘ نے ہمیں اینٹی بائیوٹک ادویات سے نجات عطاکردی تھی۔مصری نوجوان نے فوراً مجھے گرم پانی کے غرارے بناکر دیے جس سے میںنے اپنے گلے کا گِلا دورکرنے کی کوشش کی۔حذیفہ نے یہ سناکرحیران کردیاکہ اس کے پاس گلے کی خرابی کا شافی علاج موجودہے ۔میں چونکا جس پر حذیفہ نے اپنی پٹاری سے سانپ کی طرح ایک پڑیانکالی اور مصری لڑکے کے عطاکردہ گرماگرم پانی کے گلاس میں انڈیل کرمجھ سے اسے پینے کا کہا۔میںنے آہستہ آہستہ چسکیاں لیں ،گلے کو خاصا آرام ملا …میں حذیفہ کی جانب تشکر کی نگاہ سے دیکھنے لگا تو حذیفہ ہنسا او رکہنے لگا آپ تو ایسے سمجھ رہے ہیں جیسے میں نے کوئی نادر دواپلادی ہے ،یہ تو جوہرجوشاندہ ہے جو میںنے پاکستان سے چلتے ہوئے اپنے سامان میں رکھ لیاتھا…جہاں گلا رُندھ گیاہو،اجنبی سرزمین ہو اور ابھی سفر کے کئی مرحلے باقی ہوں تو ایسے میں یہ نادردواہی توتھی …
ادھرمصری نوجوان اتنا مہربان ہوگیا کہ اس نے ہماری مسافرت کے مطابق خریداری میں ہماری راہنمائی بھی کی اور کہنے لگاکہ خریداری تو ہوتی رہے گی آپ میرے مہمان ہیں تشریف رکھیںاور پہلے میری جانب سے کھانا کھائیں۔گویاکہہ رہاہو …سفر ہے شرط مسافر نوازبہتیرے …وہ ایک غیرمعمولی مصری کردارتھااوراس کی یہ فرمائش خاصی پرزورتھی لیکن ہم جلداپنے ہوٹل پہنچناچاہتے تھے ۔اس لیے اس سے ایک مکمل ’’فرخہ‘‘ یعنی روسٹڈ چکن لے کر اجازت کے خواہاں ہوئے۔ اس نے کہا نہیں آپ اگر میرے پاس بیٹھ کر کھانانہیں کھاتے تو پھر میراتحفہ ساتھ لے کر جائیں، چنانچہ اس نے کچھ روٹیاں اور کچھ کباب وغیرہ اپنی طرف سے تحفتاً ہمارے سامان میں شامل کردیے اورازرہِ کرم ’فرخے ‘کی قیمت میں بھی رعایت کی۔ ہمارامیزبان جو ہمارے براہ ِراست مکالمے کے پیش نظر بارہ پتھرباہرالگ تھلگ ہوگیاتھاہماری جانب بڑھااور یہ سب سامان سنبھال کرہوٹل سے باہر نکلا،ہماری بے تکلفی پر اس کی حیرت ختم ہونے ہی میں نہ آتی تھی، واپسی کے سارے سفرمیں وہ ہماری نام نہاد ’’عربی دانی‘‘ کی داددیتارہا۔’’فرخہ‘‘ خریدنے کے بعد دوبارہ ایک طول طویل سفر شروع ہوگیاغالباًمزیدایک گھنٹہ تو گاڑی چلی ہوگی بالآخرخداخداکرکے ہم اپنے اس مستقر تک پہنچے جس کے لیے ہماری بکنگ یونان ہی سے کئی دن پہلے کروائی جاچکی تھی۔یہ روم کا ’’ ولا ماریا رجینا ہوٹل‘‘ تھاجس میں چیک اِن کے مراحل پورے کروانے کے بعد ہمیں کمرہ نمبر۲۲۰میں پہنچاکرسفارت خانہ پاکستان سے آئے ہوئے ہمارے میزبان رخصت ہوگئے۔