بالا آخر پاک فوج میں تعیناتیوں کا مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو گیا اورجب تک یہ تحریر آپ تک پہنچے گی اس وقت تک متعلقہ نوٹیفیکشن جاری ہو چکے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے بھی اس مسئلے کو اس طرح ہینڈل نہیں کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا جس سے کنفیوڑن بڑھی۔ پی ڈی ایم نے حسب معمول موقع غنیمت جانا اور چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی بھرپور کوشش کی اور تمام کام چھوڑکر اپنا سارا زور اسی معاملے کو اچھالنے پر لگا دیا۔ ایک وفاقی وزیر نے اس پر یہ طرح لگائی کہ یہ چاے کی پیالی میں طوفان نہیں بلکہ کسی کے ’’پیتل کے گلاس‘‘ میں طوفان بپا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس نے ناکامی کا منہ دیکھا ۔ حکومت اور فوج کے درمیان مبینہ اختلاف کو دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم نے اپنی سی وی بھی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے رکھ دی کہ شاید ان کی دال گل جائے۔ کل تک فوجی قیادت کو براہ راست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اچانک پی ڈی ایم کو فوجی قیادت اچھی لگنے لگی۔ ایسا کرتے ہوے وہ یہ بھول گئے کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے جنرل فیض حمید کا نام لے کر ان پر تنقید کی اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت نواز شریف بھی اس تنقید میں پیش پیش رہے پھر بھی یہ امید لگا بیٹھے ،حیف ہے اس ادا پر۔ اس سارے کھیل میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے اچھے کارڈز بہت اچھے کھیلے اور پی ڈی ایم کی طرح ان کی رال نہیں ٹپکی۔ دونوں نے پہلی بار پاک بحریہ کی طرف سے بھارتی آبدوز کو پاکستانی حدود سے باہر بھگانے کو سراہا جس سے خوشگوار حیرت ہوئی۔ جب اپوزیشن کی توجہ اشوز
کی سیاست کے بجاے وقتی فائدے ،دائو ماری کی سیاست یا شب خون مارنے پر ہوگی تو آخر میں ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔
ہماری اپوزیشن بھی صورتحال کے مطابق اپنا ایجنڈا تبدیل کرتی رہتی ہے۔ پہلے ووٹ کو عزت دو ، لانگ مارچ اور دھرنے کا شور تھا پھر اچانک مہنگائی یاد آگئی۔ حالانکہ مہنگائی اور بیروزگاری کی طرح کے عوامی مسائل سر فہرست ہونے چاہیے تھے لیکن ان مسائل کاتعلق براہ راست عوام سے ہے اس لے یہ مسائل کبھی بھی کسی کی ترجیحات میں نہیں رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن متحد ہو تو تب ہی وہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت پر دبائو ڈال سکتی ہے۔ خدا خدا کر کے پی ڈی ایم کی صورت متحدہ اپوزیشن بنی تھی لیکن وہ بھی نواز شریف کی انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ نتیجتاً پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکال باہر کیا گیا جس سے اپوزیشن کمزور ہوئی اور لا محالہ فائدہ حکومت کو ہوا۔ گو کہ مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حتی المقدور کوشش کی اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کا پی ڈی ایم میں واپس لایا جاے لیکن برادر اکبر نواز شریف نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور اپوزیشن کی تقسیم امر ٹھہری۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی اب اپنے ووٹرز کو متوجہ کرنے کے لیے مہنگائی کے خلاف الگ الگ احتجاج کر رہی ہیں اس تقسیم شدہ اپوزیشن کی اس تحریک کا کیااثر ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تقسیم شدہ اپوزیشن کی مہنگائی کے خلاف تحریک محض خون گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔ اس تحریک سے چند سڑکیں بلاک ہوں گی اور کچھ نعرہ بازی اور بس۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پہلے پی ڈی ایم اپنی صفیں درست کرے اور ایک نکتے پر کھڑی ہو پھر آگے کی بات کرے۔ مولانا فضل الحمان لانگ مارچ کی بات کرتے ہیں تو مریم نواز کہتی ہیں اس کا وقت گزر گیا ہے اور بات ایک بار پھر جلسے جلسوں پر آ ٹھہری اب دیکھنا یہ ہے کہ تقسیم شدہ اپوزیشن کی جلسہ سیریز سے مہنگائی پر کچھ اثر پڑتا ہے یا ماضی کی طرح یہ بھی محض نشتن گفتن و برخاستن ہی کی ایک کڑی ہو گی۔
آج کل قومی سیاست میں اپوزیشن کی مرکزی قیادت جادو ٹونے کی باتیں اچھال کر حکومت پر نکتہ چیں ہے۔ اس مسئلے کو اچھالنا سیاسی پوائنٹ سکورنگ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے عوامی مسائل کا کوئی لینادینا نہیں۔ جب اشوز اور مسائل کی بھر مار ہو تو ان پر بات کرنے کی بجاے ذاتیات اور نان اشو پر بات کرنا کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان سمیت اپوزیشن ایسے معاملات اچھالنے سے پہلے یہ بھول گئی کہ ان کی ایک نائب صدر کے ہاتھ میں پیتل کے گلاس کی کیا کہانی ہے۔ مجھے اس پیتل کے گلاس اور اسلام آباد میں گڈیوں پٹولوں کی حقیقت کا علم ہے۔ لیکن میں کسی کے ذاتی معاملات اچھالنے کے حق میں نہیں اور ایسے معاملات اچھالنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ ذاتیات کی بجاے اصل مسائل کی طرف توجہ دیں۔ اور تو اور پیپلز پارٹی جو سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتی آرہی تھی وہ بھی ذاتیات کے اس ریلے میں بہہ گئی۔ ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی پارٹی سے اس کی توقع نہ تھی۔
قارئین اپنی رائے کا اظہار اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔