اسلام آباد ایک ایساشہرِ اقتدارہے جو اکثر افواہوں کی زد میں رہتا ہے مگر گزشتہ تین برسوں کے دوران افواہوں کی گرم بازاری میں قدرے ٹھہرائو سا دیکھنے میں آیا اسی بنا پراپوزیشن کی پھیلائی تبدیلی کی خبروں کو لوگوں نے سنجیدہ نہ لیا حالانکہ کئی جماعتوں نے تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کے لیے انفرادی طورپر اور کچھ نے اتحادوں کے ذریعے ملک گیر تحریک بھی چلائی مگر بات نہ بنی تھک ہار کر چند ایک بڑی جماعتوں نے کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے خودکو احتجاجی جلسوں تک محدود کر لیاجس سے اِ ن قیافوں کو اب تقویت ملنے لگی کہ حکومت کو خطرہ نہیں بلکہ موجودہ حکمران اقتدار کی مدت پوری کریں گے مگرشہرِ اقتدارکے افواہ ساز حلقوں کا کہنا ہے کہ خارجی وداخلی ناکامیوں اور معاشی تباہی سے عوام کے غضب سے بچنے کے لیے مثالی تعلقات کے بعد خرابی کاتاثر راسخ کرنے میں خودحکومتی ہاتھ ملوث ہیں تاکہ عوامی حلقوں میں ناکامیاں گنوانے کی بجائے نئے ایشوپر بات ہو اسی وجہ سے رواں ماہ چھ اکتوبر سے مثالی تعلقات کا منظر نامہ دھندلا دھندلا سا ہے اور حزبِ اقتدار کا محنت شاقہ سے دیا یہ تاثرکہ سویلین و عسکری قیادت ہر معاملے میں ایک پیج پر ہیں اور تمام حالات کی دونوں ذمہ دار دونوں قیادتیںہیں یہ تاثر معدوم ہے اور ایک پیج پر ہونے کی خبریں غیرمصدقہ لگتی ہیں۔
سچ یہ ہے کہ جس تبدیلی کے لیے عوام نے موجودہ حکمران جماعت کو ووٹ دیے تھے وہ تبدیلی تو نہیں آسکی البتہ عوامی زندگی ضرور اجیرن ہو گئی ہے پہلی بار ڈالرکی قیمت ،مہنگائی اور بے روزگاری ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی بہتری کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے ملک کے دارالحکومت میں نت نئی افواہوں کا بازار گرم ہے کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ موجودہ حالات کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے کچھ اِدارے بھی فاصلے کا تاثر دینے کی کوشش میں ہیں تاکہ مہنگائی و بے روزگاری پر عوامی غم و غصے سے محفوظ رہیں اور تمام تر نفرت سویلین سیٹ اَپ کے حصے میں آئے اِس استدلال میں اِس لیے وزن محسوس ہوتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی پر تبصروں کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی ہے ماضی میں نامزدگی کی خبروں سے توعوامی حلقوں کو آگاہی دی جاتی مگر تعیناتی کے احکامات کب جاری ہوئے یا اِس سے قبل کسی قسم کی مشاورت ہوئی یا نہیں اِس حوالے سے عوام یا میڈیا کو باخبر رکھنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی نہ ہی کسی نے جاننے کی کبھی کوشش کی لیکن چھ اکتوبر سے نامزدگی کے احکامات جاری نہ ہونے کی خبرکے چار دن بعد ہی سویلین و عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کے طوفان کی خبرہر خاص و عام تک پہنچ گئی یہ خبر کیسے خواص سے چوپالوں کی زینت بنی؟ اِس بارے مختلف آراء ہیں اِس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ ایسا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تاکہ موجودہ حالات کی ذمہ دار سویلین قیادت ہی قرار پائے۔
یہ جو تبدیلی کی باتوں کاچورن بیچاجارہا ہے اِس میں صداقت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں چند ووٹوں کا فرق ہے اِس لیے پنجاب میں تبدیلی مشکل نہیں چند ووٹوں کے فرق کو ایک آدھ اتحادی اور جہانگیرترین کو ساتھ ملاکر ختم کرنا بہت آسان ہے پنجاب میں حمزہ شباز اور شہباز شریف کی قید وبند کے دوران حکومتی اتحادیوں کا فاصلہ رکھنا تا کہ انتقامی کاروائیوں کا حصہ دار نظر نہ آئیں سے ماضی کی تلخیاں کم ہوئی ہیں اسپیکر کی طرف سے حمزہ شہباز کے ہر اجلاس میںپروڈکشن آرڈرکے اجراء سے بھی نزدیکیوں کا احساس ہواہے نجی ہوٹل میں اسمبلی اجلاس کے دوران صوبے کے اپوزیشن لیڈر سے خصوصی سلوک کرتے ہوئے
پورے اجلاس کے دوران ہوٹل میں ہی رہائش رکھنے کی سہولت فراہم کرنا بڑھتی قربتوں کا مظہرہے کیونکہ سیاستدانوں کی ایک دوسرے پرایسی نوازشات و کرم نوازیاں خالی از علت نہیں ہوتیں بلکہ طے شدہ حالات کی خبر دیتی ہیں پھر بھی تبدیلی کیوں نہیں آرہی ؟ اِس کا ایک ہی جواب ہے کہ تبدیلی اپوزیشن کا ایجنڈا ہی نہیں بلکہ وہ جان بوجھ کر ناقص حکمرانی پر تنقید تک محدودہے جس کا مقصد موجودہ حکمرانوں کا عوام میں طلسم ختم کرنے میں کوئی کمی نہ رہنے دیناہے تاکہ آمدہ عام انتخابات میں مدمقابل بدنام ہونے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکے۔
موجودہ حکومت کی بقیہ مدتِ اقتدار دوبرس سے بھی کم ہے اوراگلے برس کے درمیان تک انتخابی سرگرمیاں زوروشور سے شروع ہو جائیں گی اِ تنی کم مدت کے لیے تبدیلی کے لیے توانائیاں ضائع کرناکسی کے لیے سیاسی طور پرنفع بخش نہیں کیونکہ قبل از وقت تبدیلی سے اپوزیشن کا بھلا ہونے کی بجائے حکمرانوں کومظلوم بننے کا فائدہ مل سکتاہے اِس لیے تبدیلی کے نعروں کی حالیہ ِ سرگرمی اخلاص پر مبنی نہیں بلکہ وقت گزار اوربدنام کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے پھر بھی حزبِ اقتدار کے سانس پھولے اور چہروں پر کیوں ہوائیاں اُڑی نظر آتی ہیں؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میںحکمران جماعت آج کی طرح کبھی تنہا دکھائی نہیں دیں بلکہ اکثر متحارب سیاسی جماعتوں میں بھی سلسلہ جنبانی بحال رہا ہے لیکن ملک کے لائق فائق وزیرِ اعظم نے حریف جماعتوں سے قطع تعلقی اختیار کر رکھی ہے تبھی سیاسی درجہ حرارت کی حدت میں وقفے وقفے سے اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اب تو حکمران بھی اِس کوشش میں ہیں کہ آمدہ عام انتخابات کی مُہم میں جانے سے قبل کچھ زادِ راہ کا بندوبست کر لیں لیکن کامیابی نہیں ہورہی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اگرملک میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ آئی تو ناانصافی کی بنا پر تحریکِ انصاف بدترین انتخابی ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے۔
ہر افواہ درست نہیں ہوتی تو ہر افواہ غلط بھی نہیں ہوتی دھواں وہیں سے نکلتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے معاشی گراوٹ کا حکمرانوں کو بھی مکمل ادراک ہے لیکن ملک میں مہنگائی و بے روزگاری کے زہرکو ختم کرنے والے تریاق سے اناڑی لا علم ہیں اِسی لیے شہرِ اقتدارمیں ایک افواہ یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ حکومت خود بھی قبل از وقت انتخابی عمل میں جانے کے جوازکی متلاشی ہے تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ انتخابی مُہم کے دوران کیسے عوام کو اپنی طرف راغب کر ناہے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ کچھ اہم وزرا ء بھی قبل از وقت الیکشن کرانے کا ایسامضبوط جواز چاہتے ہیں جس کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری کی طرف کسی کادھیان نہ جائے یا کوئی کان سے پکڑ کر اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر پھینک دے تاکہ مظلوم بن کر عوام سے دوبارہ ووٹ لے سکیں لیکن غیر جمہوری تبدیلی کے آثار قطعی طور پر مفقودہیں کچھ افواہ ساز تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی روک کر دانستہ طورپر طیش دلانے کی کوشش کی گئی مگر بات نہیں بنی ظاہر ہے پی پی اور ن لیگ کے بعد پی ٹی آئی سے بھی عسکری قیادت محاذآرائی نہیں چاہے گی کیونکہ ملک کی معاشی حالت اتنی دگرگوں ہے جو ایسی کسی اتھل پتھل کی متحمل نہیں اسی لیے شہر ِ اقتدار میں بظاہر سکون ہے اور فوری طور پرکوئی بڑی نوعیت کی تبدیلی قطعی طورپر خارج ازامکان ہے البتہ لاڈلے کا تاثر معدوم ہو نے سے سیاسی تنائو نکتہ عروج کو پہنچ سکتا ہے جس سے آمدہ عام انتخابات کے نتائج کی سمت کا تعین ہو سکے گا ۔