لندن :کنگز کالج لندن کے محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس اگر ایسے مریضوں کو ہوجن کو دمہ کی شکایت رہتی ہے یا خواتین کو ہوجائے تو یہ ایک لمبے عرصے تک ان مریضو ں پر اثر اندا ز رہتا ہے ،ماہرین کا کہنا ہے انہوں نے ایسے سینکڑوں ہزاروں افراد پر تحقیق کی ہے جن میں یہ علامات ایک لمبے عرصے تک دیکھنے کوملی ہیں جنہیں لانگ کوڈ کا نام دیا جا رہا ہے ۔
برطانوی تحقیقاتی ادارے کے مطابق اس کی چار اہم وجوہات سامنے آئی ہیں جن کی وجہ سے طویل مدتی (لانگ کوڈ)علامات پیدا ہو سکتی ہیں ۔
ماہرین کے مطابق ایسے تمام افراد جن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہو اور اگر وہ کرونا وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں تو یہ بیماری ایک لمبے عرصے تک ایسے لوگوں کیساتھ جُڑی رہتی ہے ۔
جن افراد کا وزن عام لوگوں سے زیادہ ہو ان میں بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ بیماری جلدی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ،ایسے افراد کو اگر شروع میں بیماری کی شدت زیادہ ہو تو بھی یہ ایک لمبے عرصے تک اس بیماری میں مبتلا رہ سکتا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے جو لوگ دمہ کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں بھی یہ بیماری تین سے چار ہفتے تک اپنی شدت سے اثر انداز ہوتی رہتی ہے ،مریض کو زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لانگ کوویڈ کی علامات میں جاری تھکاوٹ ، ذائقہ یا بو کی مسلسل کمی ، سانس اور قلبی امراض اور دماغی صحت کے امور شامل ہیں۔
برطانوی ڈاکٹر کا کہنا ہے اس بیماری کی واحد اور عام علامت گہری تھکاوٹ ،مکمل ہڈیوں میں درد ،ایسا درد جو آرام کرنے سے بھی نہ جائے اس وقت لانگ کوڈ میں سب سے اہم خصوصیت سمجھی جا رہی ہے ،برطانوی ڈاکٹر کامزید کہنا تھا کہ سانس لینے میں دشواری ،کھانسی ،سر درد ،نیند کی دشواری ،موڈ میں تبدیلی اور افسردگی سی رہنا یہ سب لانگ کوڈ کی علامات میں ہی شامل ہو تی ہیں ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لانگ کوڈ والے مریضوں سے جب اس بیماری کے متعلق تحقیق کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ شروع میں تو یہ بیماری انتہائی شدت سے آتی ہے کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ہم اپنے آپ کو نارمل محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن لانگ کوڈ میں یہ بیماری دوبارہ اپنے اثرات دکھانا شروع کر دیتی ہے ۔کچھ مریضوں کا یہاں تک بھی کہنا تھا کہ انہیں تین مہینوں تک اس بیماری کے اثرات محسوس ہوتے رہے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا تھا جب ہم کسی ویکسین کا انتظار کرتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب مل کر طرز زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں اور علامات یا مثبت ٹیسٹوں سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کے ذریعہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مل کر کام کریں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ عوام کو آگاہ رہنا چاہیے کہ ان کے سلوک سے اس وائرس کے پھیلائوپر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے اور سب کو احتیاطی تدابیر اس بدلتے ہوئے حالات میں لازمی اختیار کرنی چاہیں ۔