آخر کار وہ دن بھی آ گئے جب 6سال بعد پاک فوج کی کمان تبدیل ہو گی، ویسے تو دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک کے لیے یہ خبر اتنی بڑی نہیں ہوتی جتنی پاکستان میں یہ خبر اْڑائی جاتی ہے۔ حالانکہ یہاں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کی کمان بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے، وزراء بھی بدلتے رہتے ہیں، پارلیمانی لیڈر بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر جس شدت سے پاکستان میں آرمی کی کمان کی تبدیلی کا انتظاررہتا ہے،وہ تو کمال ہی ہے۔ اور تو اور بھارت، افغانستان، چین، روس، امریکا اور یورپ بھی پاکستان میں آرمی کی کمان کی تبدیلی پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ پاکستان خطے کے بڑے ممالک چین، بھارت، روس، افغانستان، ایران کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ اور اس کی افواج کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کی چند بڑی افواج میں سے ایک ہے اور دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین افراد میں ہمارے آر می چیف کا نمبر بھی کسی نہ کسی فہرست میں مل ہی جاتا ہے۔
لہٰذا رواں ماہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدت سے انتظار ہورہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29نومبر کو مکمل ہونے جا رہی ہے۔اور نئے آنے والے آرمی چیف کا نام کیا ہوگا؟ حالانکہ اس حوالے سے بہت سے قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں لیکن بقول شاعرداغ دہلوی اْن کی شاید ہی کوئی اہمیت ہوگی۔
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
خیر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا 6 سالہ دور انتہائی اہم رہا، اس دور کی اگر چیدہ چیدہ بات کریں تو قمر جاوید باجوہ کی کمان میں پاکستان سے 95 فیصد دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔ آج کل باجوہ صاحب الوداعی دورے کر رہے ہیں، جس سے لگ یہی رہا ہے کہ وہ اپنے اس عہدے کی مزید توسیع نہیں چاہتے۔ انہیں سابق وزیر اعظم عمران خان نے 2019 میں تین سال کی توسیع دی تھی جس کے لئے آئین میں ترمیم بھی کی گئی تھی بعد ازاں اسے مزید جاری رکھنے کی افواہیں گردش رہیں جنہیں جنرل باجوہ نے ہر بار مسترد کیا۔ پاک فوج میں یہ روایت ہے کہ سبکدوشی کے وقت افسران اپنے زیر کمان اداروں اور اہم مقامات کے الوداعی دورے کرتے ہیں۔
جنرل باجوہ کو 2016 میں جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاک فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا تھا۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیاب تکمیل کے بعد 2017 میں ملک کے اندر شدت پسند تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کی سرکوبی کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آپریشن ردالفساد عمل میں لایا گیا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ جنرل باجوہ نے پاک فوج کے سپہ سالار کی
حیثیت سے ملکی سرحدوں، لائن آف کنٹرول، فوجی مشقوں کی انسپکشن، قدرتی آفات میں متاثرین کی عملی امداد اور ان کے ریسکیو کیلئے خود کو ہر موقع پر موجود پایا۔ اگست 2022 میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے تناظر میں انہیں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعاون کی جڑیں مضبوط بنانے میں موثر کردار ادا کرنے اور منفرد کوششوں کے اعتراف میں ”و سام الاتحاد“ اعزاز عطا کیا جو کہ برادر اور دوست ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کو دیا جانے والا ملک کا دوسرا بڑا اعزاز ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے کیرئیر کا آغاز 16بلوچ رجمنٹ سے اکتوبر 1980ء میں کیا تھا۔ وہ کینیڈا اور امریکہ کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور انفینٹری کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں انسٹرکٹر، فوج میں نہایت اہم سمجھی جانے والی راولپنڈی 10کور کمانڈر، جنرل ٹریننگ اور ایویلیوایشن کے انسپکٹر جنرل،انفینٹری بریگیڈ میں بطور بریگیڈ میجر اور ناردرن ایریاز میں انفینٹری ڈویژن کے کمانڈر بھی رہے۔
اس کے علاوہ تعریف وہ جو دوسرے بھی کریں، اور اعزاز وہ جو آپ کا وقار بھی بلند کرے، جنرل باجوہ کے دور میں انہیں دنیا بھر کے ممالک سے اعزازات بھی ملے۔یعنی انہیں چھ مختلف دوست ممالک کی جانب سے بہترین خدمات پر اعلیٰ اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دورے کے دوران آرمی چیف کو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے ”آرڈر آف یونین“ میڈل سے نوازا۔ یہ اعزاز دو طرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے نمایاں کردار کے اعتراف میں دیا گیا۔ اس سے قبل 26 جون 2022 کو سعودی ولی عہد اور نائب وزیر اعظم محمد بن سلمان نے انہیں ”کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس“ سے نوازا تھاجبکہ 9 جنوری 2021 کو بحرین کے ولی عہد کی جانب سے ”بحرین آرڈر (فرسٹ کلاس) ایوارڈ“ دیا گیا اور 5 اکتوبر 2019 کو اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی ”آرڈر آف ملٹری میرٹ“ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اسی طرح روسی سفیر نے آرمی چیف کو 27 دسمبر 2018 کو ”کامن ویلتھ ان ریسکیو اینڈ لیٹر آف کمنڈیشن آف رشین مانیٹرنگ فیڈریشن“ کا اعزاز دیا۔ قبل ازیں 20 جون 2017 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ترکی کے ”لیجن آف میرٹ ایوارڈ“ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
بہرحال اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ پاک فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کی بدولت حربی تاریخ میں اپنا ایک الگ مقام حاصل کیا ہے۔ محدود وسائل کے ساتھ بڑے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے پاک فوج کی خدمات قابل فخر ہیں۔ سیاچن کا محاذ ہو یا پھر بھارت اور افغانستان کے ساتھ طویل سرحدی پٹی۔ بھارت کے جارحانہ عزائم اور اسکے خفیہ منصوبوں کی ناکامی، بیرونی مداخلت سے ہونیوالی دہشت گردی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اندرون اور بیرون ملک دشمن عناصر کی سرکوبی، ہر میدان میں پاکستانی افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوایا ہے جبکہ پاک فوج اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ بھی بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہے، اس تناظر میں دنیا نے پاکستانی افواج کی خدمات کا ہر مقام پر اعتراف کیا ہے۔ آرمی چیف کو ملنے والے اعزازات بلاشبہ پاکستان کیلئے اعزاز ہیں جوعالمی سطح پر عساکر پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا برملا اعتراف ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے چھ سالہ دور میں پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے علاوہ ملکی معیشت کے استحکام کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر برق رفتاری سے کام مکمل کرایا۔ گوادر بندرگاہ کو آپریشنل کرنے اورملکی تاریخ کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل میں بھی پاک فوج اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ جنرل باجوہ نے پاک فوج کے سربراہ کے طور پر قوم اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے جو شاندار خدمات انجام دیں انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔