یمنی جنگ دہشت کی علامت

08:04 AM, 21 Nov, 2021

 سوشل میڈیا پر چند منٹ پر مشتمل ایک یمنی بچے کی ویڈیو منظرِ پر عام پر آئی ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ وہ بچہ زخمی حالت میں ہسپتال کے بستر پر چلاتا اور آہ و بکا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ویڈیو ان شہروں کے بچوں پر طاری خوف و دہشت کو ظاہر کرتی ہے جن کو حوثی ملیشیا کی جانب سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان وحشیانہ کارروائیوں نے عسکری یا شہری اور بڑوں یا بچوں کسی کو بھی نہیں بخشا ہے۔ یہ ویڈیو وزیرِ اطلاعات معمر الاریانی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کی۔ ویڈیو میں حوثیوں کے راکٹ سے زخمی ہونے والا بچہ ہسپتال کے بستر پر علاج کے دوران ہذیانی کیفیت میں بول رہا ہے حوثیوں نے حملہ کر دیا ہے، حوثیوں نے حملہ کر دیا ہے، انہوں نے دھماکے سے اڑا دیا۔ الاریانی نے اس جذباتی منظر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ایک منظر جو یہ بیان کر رہا ہے کہ حوثی نواز ملیشیا کس طرح یمنی بچوں کے لئے دہشت کی علامت بن چکی ہے۔ یہ الجوبہ ضلع کا ایک بچہ ہے جو اپنے گاؤں اور گھر پر حوثی ملیشیا کے حملے کے بارے میں ہذیانی کیفیت میں بات کر رہا ہے۔ یمنی وزیر کے مطابق حوثیوں کی جانب سے بھڑکائی گئی جنگ نے یمن کے لاکھوں بچوں کو تعلیم اور معمول کی طبعی زندگی گزارنے کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ 
یمن میں گزشتہ پانچ برس سے جنگ جاری ہے جہاں حوثی باغی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت سے برسرِ پیکار ہیں۔ سعودی اور علاقے کے دیگر اتحادی اس جنگ میں یمنی حکومت کے حامی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق یمن اس وقت دنیا کے بد ترین انسانی بحران سے دوچار ہے جہاں تقریباً دو کروڑ لوگ یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی کو ہر طرح کی امداد کی سخت ضرورت ہے۔ اس صورتحال سے بچے بہت شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں اور مجموعی طور پر 11 ملین افراد انسانی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔ یعنی تقریباً ہر پانچ میں چار یمنی بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے متحارب گروپوں پر زور دیا ہے کہ مذاکرات کی راہ اختیار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض عالمی قوتوں کی منافقت، اسلام دشمنی، جنگ زرگری اور مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی و قبائلی مخاصمت، مسلک و فرقہ واریت کی تقسیم نے سنگین بحران پیدا کر دیا ہے، تاہم دہشت گردی کی داخلی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان نے اب تک یمن تنازع میں اپنا امن پسندانہ کردار ادا کیا اور غیر جانبدار رہا ہے۔ 
یمن میں جو بحران برپا ہے، اس سے مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں صورتحال کو جس قدر جلد درست کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ یمن کی صورتحال کو بہتر کرنے کرنے کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ اقوامِ عالم کو بھی متحرک کیا جانا چاہئے۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ اسی لئے قائم ہوا تھا کہ وہ مختلف اقوام کے درمیان جھگڑوں کو روکے تا کہ نوبت جنگ تک نہ پہنچے۔ یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس معاملے میں ابھی تک اقوامِ متحدہ کا کردار نظر نہیں آ رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ جس مقصد کے لئے قائم ہوا تھا ابھی تک اپنے اس مقصد میں ناکام رہا ہے وہ صرف طاقتور ممالک کے مفادات کے تحت کام کرتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ حالیہ چند برس میں مسلمان ملکوں میں جو خانہ جنگی ہوئی یا بد نظمی ہوئی اسے ختم کرانے کے لئے دنیا کی طاقتور اقوام نے کوئی بھی متحرک کردار ادا نہیں کیا۔ شام کے معاملے کو دیکھ لیں یہ ملک تباہ ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس بھی ہوتے رہے لیکن قیامِ امن کے لئے کوششیں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔ یہی حال عراق کا ہے، عراق میں امریکہ نے فوجی کارروائی کی لیکن وہاں کوئی مستحکم حکومت قائم کرنے سے پہلے ہی امریکہ اپنی فوجیں نکال لے گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق ابھی تک سنبھل نہیں سکا ہے اور یہ ملک متحارب گروپوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ لیبیا اور مصر بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ رات کے اندھیرے میں افغانستان سے بھی نکل گیا۔ یمن میں بھی معاملات خاصے عرصہ سے خراب چلے آ رہے تھے لیکن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے حالات کو بہتر کرنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اگر امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس چاہتے تو یمن میں بہت پہلے حالات کو بہتر کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسانی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی طاقتیں وہاں بچوں، خواتین کو یونہی مرنے کے لئے چھوڑے ہوئے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یمن کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت خاموش رہ کر اس خطے کو خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھا کر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یمن کے مختلف شہروں بلکہ سعودی عرب کے بھی کئی شہروں پر حوثی ملیشیا کی جانب سے شہری آبادیوں پر راکٹ حملوں کی بھی اطلاعات ہیں جس میں کئی شہری جانبحق اور زخمی ہو رہے ہیں۔ 
یمن میں حوثی ملیشیا اپنے مفادات کے لئے اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہا رہی ہے جنگ یمن کا تعلق وہاں کے مسلمانوں کے آپس کے اختلافات سے ہے۔ اسلامی تاریخ میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں، انہیں اسلامی جہادی جنگیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے غیر مسلموں کے درمیان لڑی گئی تھیں۔ اس لئے انہیں اسلامی نظریے کے مطابق جہادِ اکبر کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب مذہب کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانا۔ لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کی جتنی بھی جنگیں اور جہادی تنظیمیں ابھر کر سامنے آئی ہیں یہ زیادہ تر آپس میں مسلمانوں کے ہی خلاف لڑی جا رہی ہیں۔ اسلامی دہشت گردوں کے جنگی حملوں کے درپردہ وہ قوتیں اور عناصر موجود ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ان جنگوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی جتنی بھی جہادی تنظیمیں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہی ہیں ان کا اسلامی تعلیمات اور نظریات سے کسی قسم کا کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ یمن میں حوثی باغیوں نے جو مسلح بغاوت جاری کر رکھی ہے، اس بحران کے حل کے لئے ضروری ہے کہ حوثی باغی ہتھیار ڈال کر سیاسی دھارے میں شریک ہوں۔

مزیدخبریں